آرٹیکل 63-اے کی تشریح سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ جمہوریت کی مضبوطی کی جانب بڑا قدم ہے،سراج الحق
2سال پہلے
لاہور18 مئی 2022ء
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63-اے کی تشریح سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ جمہوریت کی مضبوطی کی جانب بڑا قدم ہے۔اعلیٰ عدلیہ قوم کی امیدوں کا مرکز بن گئی۔ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے آئین اور قانون کی بالادستی قائم کرنا ہو گی۔ لوٹاکریسی کلچر کے خاتمے سے ہی قوم کا جمہوریت پر اعتماد بحال ہو گا۔ سیاسی جماعتیں فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل کریں اور اپنے اندر جمہوریت بھی لائیں۔ سیاسی جماعتوں میں خاندانی اجارہ داریاں اور ون مین ڈکٹیٹرشپ قائم ہے۔ جاگیرداروں، وڈیروں اور کرپٹ سرمایہ داروں نے ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ پاکستان 75برسوں سے سسک رہا ہے، دو فیصد اشرافیہ نے اسے کھوکھلا کردیا۔ کشمیر کا سودا کیا گیا۔ ماضی کے اور موجودہ حکمرانوں نے کشمیر پر بھارت کے سامنے مکمل پسپائی اختیار کی۔ یاد رکھیں جس حکمران نے بھی کشمیریوں کے خون سے غداری کی وہ عبرت کا نشان بنے گا۔ پاکستانی حکمرانوں کی غفلت اور نااہلی کی وجہ سے آزادی کشمیر کی منزل دور ہو گئی، مگر یقین ہے کہ مقبوضہ کشمیر جلد آزاد ہوگا۔ پوری پاکستانی قوم اور جماعت اسلامی کشمیریوں کی صبح آزادی تک ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ کشمیری سات دہائیوں سے اسلام اور پاکستان کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ ان خیالات کااظہار انھوں نے مظفرآباد میں عید ملن تقریب، جمعیت طلبہ عربیہ کے زیر اہتمام آل پاکستان لیڈر شپ کیمپ اور اراکین جماعت کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔قائمقام امیر جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر شیخ عقیل الرحمان ایڈووکیٹ،سیکرٹری جنرل محمدتنویر انور خان سمیت دیگر قیادت بھی اس موقع پر موجود تھی۔
سراج الحق نے کہا کہ بی جے پی کی فاشسٹ حکومت روزانہ کی بنیاد پر کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا رہی ہے۔ جنوری 1989ء سے لے کر اب تک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج نے تقریباً ایک لاکھ کشمیریوں کو شہید کیا جن میں سے 7233کو زیرحراست شہید کیا گیا۔ بھارتی قابض افواج نے پونے دو لاکھ کشمیریوں کو گرفتار، ایک لاکھ دس ہزار سے زائد عمارتوں کو مسمار اور ایک لاکھ سے زائد بچوں کو یتیم کیا۔ قابض فورسز نے 11225خواتین کی عصمت دری کی۔ اس ساری صورت حال میں ہماری حکومتوں نے مقبوضہ کشمیر کے ایشو پر نہ صرف خاموشی اختیار کیے رکھی بلکہ بھارت سے محبت کی پینگیں بڑھانے کی بھی کوششیں کیں۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ و سابقہ حکومت کے پاس مقبوضہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے نجات دلانے کے لیے کوئی پالیسی موجود ہی نہیں۔ حکمرانوں نے گلگت و بلتستان پر پاکستان کے تاریخی موقف سے پیچھے ہٹ کر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ قدرتی وسائل سے مالا مال گلگت بلتستان کے خطے کو سابقہ حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی نظرانداز کر رہی ہے۔ گزشتہ پانچ ہفتوں سے ملک پر پی ڈی ایم اور پی پی پی کی حکومت قائم ہے، لیکن موجودہ صورت حال نے ثابت کر دیا کہ پی ٹی آئی اور موجودہ اتحادی حکومت کی کشمیرپالیسی میں کوئی فرق نہیں۔ سودی معیشت، مغرب اور استعمار سے وفاداری، سیکولرایجنڈا کے تسلسل اور کشمیر پر خاموشی سمیت دیگر بے شمار ایشوز پر تینوں کی سوچ یکساں ہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت کشمیر کی آزادی کے لیے نیشنل ایکشن پلان دے۔ پاکستانی سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کیے جائیں۔ حکومت نائب وزیرخارجہ تعینات کرے جو صرف کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی ذمہ داری سرانجام دے۔ پارلیمانی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل وفد تشکیل دیا جائے جو مختلف ممالک کے سربراہان، اعلیٰ قیادت اور تھنک ٹینک سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ملاقاتیں کرے۔ آزاد کشمیر حکومت میں مقبوضہ کشمیر کے نمائندے شامل کر کے اسے پورے کشمیر کی حکومت تسلیم کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ حکمران جماعتیں سٹیٹس کو جاری رکھنا چاہتی ہیں اور صرف جھوٹے وعدے کرکے عوام کوبہلاوہ دیتی ہیں۔ قوم سے کہتا ہوں ان کے دھوکے میں نہ آئے بلکہ مخلص، ایمان دار اور اہل افراد کو خدمت کا موقع ملنا چاہیے تاکہ ملک حقیقی معنوں میں اسلام کا قلعہ اور خوشحالی و ترقی کا مرکز بن جائے۔