حضرت علیؓ کی امیدواری خلافت؟

( سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ )

سوال: جماعت اسلامی کے ارکان بالعموم موجودہ زمانہ کے جمہوری طریقوں پر جو تنقیدیں کرتے ہیں ان میں منجملہ اور باتوں کے ایک بات یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ جو شخص خود کسی منصب یا عہدے کا امیدوار ہو یا اس کا دعویدار بنے، اسلام کی رو سے وہ اس کا مستحق نہیں ہے کہ اسے منتخب کیا جائے۔ اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت علیؓ جو خلافت کے امیدوار یا دعویدار تھے اس کے متعلق کیا کہا جائے گا؟


جواب: حضرت علیؓ کی امیدواری و دعویداری کا قصہ دراصل ایک بڑے قصے کا جزو ہے جس کی بنا بعض مخصوص روایات پر قائم ہے۔ اس جزو کو کل سے الگ کرکے تنہا اسی پر بحث کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔ اگر آپ اس جزو کو مانتے ہیں تو اس پورے قصے کو ماننا پڑے گا جس کا جز و یہ ہے اور پھر اس پر بحث کرنی ہوگی۔


اس قصے کی روایات بہت مشہور ہیں۔ یعقوبی نے اپنی تاریخ میں سقیفہ بنی ساعدہ کے بعد کے واقعات کا جو نقشہ پیش کیا ہے، اور ابن قتیبہ نے اپنی الامامۃ والسیاسۃ میں جو نقشہ کھینچا ہے، اور ایسے ہی دوسرے لوگ جو روایات اس سلسلے میں بیان کرتے ہیں وہ سب آپ کے سامنے موجود ہیں۔ اگر آپ اس تاریخ کو باور کرتے ہیں تو پھر آپ کو محمدﷺ مبلغ قرآن، داعی اسلام، مذکئی نفوس، کی شخصیت پر اور ان کی تعلیم و تربیت کے تمام اثرات پر خط نسخ کھینچ دینا پڑے گا اور یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اس پاکیزہ ترین انسان کی ۲۳ سالہ تبلیغ و ہدایت سے جو جماعت تیار ہوئی تھی۔ اور اس کی قیادت میں جس جماعت نے بدر و احد اور احزاب و حنین کے معرکے سر کرکے اسلام کا جھنڈا دنیا میں بلند کیا تھا، اس کے اخلاق، اس کے خیالات ، اس کے مقاصد، اس کے ارادے، اس کی خواہشات ، اور اس کے طور طریق عام دنیا پرستوں سے ذرہ برابر بھی مختلف نہ تھے۔


اس تاریخ میں ہمارے سامنے کچھ اس طرح کا نقشہ آتا ہے کہ ایک حوصلہ مند شخص نے کئی سال کی جانفشانی سے،لڑ بھڑ کر ایک ملک فتح کیا تھا اور اپنے زور بازو سے ایک سلطنت قائم کرلی تھی۔ پھر قضائے الہٰی سے اس نے وفات پائی۔ اس کی آنکھ بند ہوتے ہی اس کے رفیقوں اور ساتھیوں نے، جو سب کے سب اسی کے بنائے ہوئے آدمی تھے، اور جن پر وہ تمام عمر اعتماد کرتا رہا، یکایک آنکھیں پھیر لیں۔ابھی اس کے گھر والے اس کی تجہیزو تکفین ہی میں مشغول تھے کہ اس کے ساتھیوں کو یہ فکر پڑ گئی کہ کس طرح تخت شاہی پر قبضہ کرلیں۔ چنانچہ وہ جمع ہوئے اور پہلے آپس میں جھگڑا کرتے رہے۔ ہر ایک چاہتا تھا کہ یہ لقمہ تر میرے منہ میں آئے۔ آخر بڑی ردو کد کے بعد انہوں نے اپنے میں سے ایک کو بادشاہی کے لیے منتخب کرلیا۔ یہ کاروائی جب مکمل ہوگئی تو بانی سلطنت کے خاندان والوں کو اس کی خبر پہنچی اور ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے مرحوم کا بیٹاتو تھا نہیں، ایک داماد تھا۔ وہ بپھر گیا کہ میرے ہوتے اور کون وارث تاج وتخت ہوسکتا ہے، بیٹی بھی پیچ وتاب کھانے لگی کہ جو سلطنت اسی کے باپ نے برسوں کی جانفشانی سے قائم کی تھی اس پر دوسروں کو قبضہ کرلینے کا کیا حق ہے۔پہلے تو خاندان والے آپس میں سرجوڑ کرمشورے کرتے رہے۔ پھر انہوں نے مرحوم بادشاہ کے پرانے پرانے ساتھیوں کو اس کے احسانات یاد دلا دلا کر اپیل کرنے شروع کیے۔ اور پبلک میں اپنے حق کا مطالبہ کیا۔ مرحوم کا داماد اس کی بیٹی کو دارالسلطنت کے محلوں میں لیے پھرتا رہا اور ایک ایک با اثر قبیلے میں اسے لے گیا تاکہ شاید اسی کی فریاد سے لوگوں کے دل پگھل جائیں۔ مرحوم بادشاہ کی قبر کو بھی خطاب کر کرکے دہائیاں دیں کہ شاید یہی اپیل کار گر ہوجائے۔ مگر کسی نے سن کر نہ دی۔ آخر بیچارہ تھک ہار کر بیٹھ رہا، اور جب مرحوم کی بیٹی بھی، جو اس کے دعوے کی اصل بنیاد تھی، دنیا سے رخصت ہوگئی،تو اس غریب نے جا کر بادل ناخواستہ غاصب تخت کی اطاعت قبول کرلی۔ مگر دل میں وہ برابر پیچ و تاب کھاتا رہا اور وقتاً فوقتاً اپنے اس پیچ وتاب کا اظہار بھی کسی نہ کسی طرح کرتا رہا۔


کیا واقعی یہی تصویر ہے محمدﷺ اور ان کے اہل بیتؓ اور ان کے اصحاب کبارؓ کی؟ کیا اللہ کے رسول کی یہی پوزیشن تھی کہ وہ دنیا کے عام بانیان سلطنت کی طرح ایک سلطنت کا بانی تھا؟کیا پیغمبر خدا کی۲۳ سالہ تعلیم، صحبت اور تربیت سے یہی اخلاق، یہی سیرتیں اور یہی کردار تیار ہوتے تھے؟آخر اس نقشے کو کیا مناسبت ہے قرآن اور اس کی پاکیزہ تعلیمات سے؟ محمدﷺ کی زندگی سے اور آپ کی ان بلند ترین اخلاقی ہدایات سے جو ذخیرہ حدیث میں بھری پڑی ہیں؟ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے ان سوانح حیات سے جن میں (اس ایک قصہ کے سوا) دنیا طلبی کا کوئی شائبہ تک نظر نہیں آتا؟ ابو بکرؓ و عمرؓ کی ان زندگیوں سے جن کا کوئی رنگ بھی دنیا کے بھوکے لوگوں کے رنگ ڈھنگ سے نہیں ملتا؟اور صحابہ کرامؓ کی ان سیرتوں سے جن کے مجموعے میں اس داستان کے کھینچے ہوئے نقشے کو رکھ کر دیکھا جائے تو کسی طرف سے بھی اس کا جوڑ ان کے ساتھ بیٹھتا نظر نہیں آتا؟


پھر اگر اس گروہ کی تاریخ کا پورا مستند ذخیرہ ہمارے سامنے اس کے اخلاق، اس کی سیرت، اس کی ذہنیت اور اس کے نفسیات کا کچھ اور نقشہ پیش کرتا ہے اور صرف یہ ایک مجموعہ روایات اس کے بالکل برعکس ایک اور ہی نقشہ پیش کررہا ہے تو آخر عقل کیا کہتی ہے؟کیا یہ کہ سمندر میں اتفاقاً آگ لگ گئی تھی؟یا یہ کہ سمندر میں پانی تھا ہی نہیں، آگ ہی آگ تھی؟ یا یہ کہ آگ لگنے کا قصہ جھوٹا ہے، جب تمام شہادتیں اس کی تصدیق کرتی ہیں کہ وہ سمندر تھا تو وہاں پانی کے سوا کچھ نہ ہو سکتا تھا!


تاہم اگر کسی کا جی چاہتا ہے کہ اس قصے کو باور کرے تو ہم اسے روک نہیں سکتے ۔تاریخ کے صفحات تو بہر حال اس سے آلودہ ہی ہیں۔ مگر پھر ساتھ ہی یہ ماننا پڑے گا کہ خاکم بدہن رسالت کا دعویٰ محض ایک ڈھونگ تھا، قرآن شاعرانہ لفاظی کے سوا کچھ نہ تھا، اور تقدس کی ساری داستانیں خالص ریاکاری کی داستانیں تھیں۔ اصل میں تو ایک شخص نے ان چالوں سے دنیا کو پھانساتھا تاکہ اپنی ایک سلطنت بنائے اور اس قسم کے دنیا طلب مکاروں کے گرد جیسے لوگ جمع ہواکرتے ہیں ویسے ہی لوگ اس کے گرد بھی جمع ہو گئے تھے اور تقدس کے اس ظاہری پردے میں دراصل وہ جن مقاصد کے لیے کام کررہے تھا ان کاراز آخر کار اس کے اپنے گھر والوں نے فاش کرکے رکھ دیا۔ معاذ اللہ ۔ثم معاذ اللہ۔


اس کے مقابلہ میں تاریخ کچھ اور روایات بھی پیش کرتی ہے۔ ذرا ان کو بھی دیکھ لیجئے۔ علامہ ابو جعفر ابن جریر طبری پوری سند کے ساتھ یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعید بن زید سے نبی کریمﷺ کی وفات کے واقعات پوچھے گئے تھے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے بیان کیا۔


ان علی ابن طالب کان فی بیتہ از جاء ہ من انباہ ان ابابکر قد جلس للبیعۃ فخرج فی قمیص لا ما علیہ ازارو لا رد ائعجلا کراھیۃان یبطی عنہا حتی باعیہ، ثم جلس الیہ وبعث الٰیثوبہ فاتاہ فتحللہ لزم مجلسہ۔


علی ابن طالب اپنے گھر میں تھے کہ ایک شخص نے ان کو جاکر خبر دی کہ ابو بکر بیعت لینے کے لیے بیٹھے ہیں۔ یہ سن کر وہ چادر اور ازار کے بغیر نرے قمیص ہی میں نکل کھڑے ہوئے، اتنی دیر کرنی بھی انہوں نے پسند نہ کی کہ کپڑے پہن لیں، پہلے جاکر بیعت کی پھر گھر سے کپڑے منگائے اور پہن کر مجلس میں بیٹھے۔


بیہقی کی روایت اس سے تھوڑی مختلف ہے۔ وہ ابو سعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ:۔


فصعد ابوبکر المنبر فنظرفی وجوہ القوم فلم یرالزبیر قال فد عابالزبیر فجاء فقال ابن عمۃ رسول اللہ وحواریہ، اردت ان تشق عصا المسلمین؟ فقال لاتثریب یاخلیفۃ رسول اللہ، فقام نبایعہ۔ ثم نظر فی وجوہ القوم فلم یرعلیند عابعلی بن طالب، فجاء، فقال قلت ابن رسول اللہ وختنہ علی ابنتہ، اردت ان تشق عصا المسلمین؟ قال لاتثریب یا خلیفۃ رسول اللہ فبایعہ۔


پھر ابوبکر منبر پر چڑھے اور حاضرین مجلس پر نظر ڈالی۔ دیکھا کہ زبیر موجود نہیں ہیں۔ ان کو بلانے کے لیے آدمی بھیجا۔ جب وہ آئے تو فرمایا، میں کہہ رہا تھا کہ رسول اللہﷺ کے پھوپھی زاد بھائی اور حضور کے حواری کہاں ہیں۔ کیا تم مسلمانوں کی جماعت سے الگ رہنا چاہتے تھے؟انہوں نے جواب دیا، اے جانشین رسولﷺ معاف فرمائے، پھر اٹھے اور بیعت کی۔ پھر ابوبکرؓ نے مجمع پر دوبارہ نظر ڈالی اور دیکھا کہ علیؓ نہیں ہیں۔ انہیں بلانے کے لیے بھی آدمی بھیجا۔ جب وہ آگئے تو فرمایا، میں کہہ رہا تھا کہ رسول اللہﷺ کے چچازاد بھائی اور داماد کہاں رہ گئے۔ کیا تم مسلمانوں کی جماعت سے الگ رہنا چاہتے تھے؟ انہوں نے بھی فرمایا کہ اے جانشین رسولﷺ معاف فرمائے۔ پھر بیعت کی۔


ان دونوں روایتوں میں بظاہر جو تھوڑا سا اختلاف نظر آتا ہے وہ محض تفصیل کا فرق ہے ورنہ دراصل دونوں ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں۔ پھر اس کی مزید تائید حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کی اس روایت سے ہوتی ہے جو موسیٰ بن عقبہ نے عمدہ سند کے ساتھ اپنے مغازی میں نقل کی ہے۔


ثم خطب ابوبکر واعتنرالی الناس وقال ماکنت حریصا علی الامارۃ یومار رلا لیلۃ ولا سالتھافی سرولا لانیۃ۔ فقبل المہاجرون مقالتہ وقال علی الزبیر ما غضبنا الالانااخرنا عن المشررۃ وانا نریٰ ابابکر احق الناس بہا، انہ لصاحب الغلم وانا النعرف شرفہ، وخبرہ ولقد امرہ رسول اللہ ان یصلی بالناس وھوحی۔


پھر ابوبکر نے(بیعت کے بعد) خطبہ دیا اور اپنی معذرت پیش کرتے ہوئے فرمایا ’’میرے دل میں ایک دن یا ایک رات کے لیے بھی امارت کی ہوس نہ تھی اور نہ میں نے کبھی خفیہ یا اعلانیہ اس کی خواہش کی۔‘‘ سب مہاجرین نے حضرت ابوبکر کی اس تقریر کو خاموشی سے سنا۔ البتہ علی اور زبیر نے اتنا کہا کہ ہم کو شکایت صرف اس بات کی ہے کہ ہمیں مشورے میں شریک نہیں کیا گیا، ورنہ ہم بھی ابوبکر کو سب سے زیادہ مستحق سمجھتے ہیں۔ وہ رسول اللہﷺ کے رفیق غار ہیں۔ ان کے شرف اور ان کی تجربہ کاری کا ہمیں اعتراف ہے اور رسول اللہﷺ نے اپنی زندگی میں انہی کو اپنی جگہ نماز پڑھانے کے لیے کھڑا کیا تھا۔


پھر علامہ ابن کثیر البدایہ و النہایہ میں اپنی یہ تحقیق پیش کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ کے پاسِ خاطر سے چھ مہینے تک خانہ نشین رہے۔ کیونکہ وہ تقسیم میراث کے معاملے میں حضرت ابوبکرؓ سے ناراض ہوگئی تھیں، اور حضرت علیؓ نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ نبی کریمﷺ کی وفات سے جو داغ ان کے دل کو لگا ہے اس پر کسی ادنیٰ وجہ ملال کا بھی اضافہ ہو۔ بعد میں جب حضرت فاطمہؓ کا انتقال ہوگیا تو حضرت علیؓ نے دوبارہ حاضر ہوکر حضرت ابوبکر سے بیعت کی تجدید کی اور معاملات میں حصہ لینا شروع کیا۔ علامہ ابن عبدالبراستیعاب میں حضرت عبداللہ بن مبارک کے حوالے سے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکرؓ کے لیے بیعت خلافت ہوچکی، تو ابوسفیان حضرت علیؓ کے پاس آئے اور کہا’’یہ کیا ہوا؟ قریش کے قبیلوں میں سب سے چھوٹے قبیلے نے تمہارے مقابلے میں اس منصب پر غلبہ پالیا؟ اے علی! اگر تم چاہو تو خدا کی قسم میں اس وادی کو سواروں اور پیادوں سے بھر دوں۔‘‘اس پر حضرت علیؓ نے جواب دیا’’مازلت عد والا سلام واھلہ فما ضرذ الک الاسلام واھلہ شیئا۔ اناراینا ابابکر لھا اھلاً۔ تم ساری عمر اسلام اور اہل اسلام کی دشمنی کرتے رہے، مگر تمہاری دشمنی سے اسلام اور اہل اسلام کا کچھ بھی نہ بگڑ سکا۔ ہم ابوبکر کو اس منصب کا اہل سمجھتے ہیں۔‘‘


ہم خواہ مخواہ کسی کے ساتھ بحث و مناظرے میں نہیں الجھنا چاہتے۔ ہم نے یہ دونوں تصویریں پیش کردی ہیں۔ اب ہر صاحب عقل کو خود سوچنا چاہئے کہ ان میں سے کونسی تصویر مبلغ قرآنﷺ اور آپ کے اہل بیت و اصحاب کبار کی سیرتوں سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ اگر پہلی تصویر پر کسی کا دل رجھتا ہو تو رجھے، مگر اس کے ساتھ ایک امیدواری ودعویداری کا مسئلہ ہی نہیں، پورے دین و ایمان کا مسئلہ حل طلب ہوجائے گا۔ اور اگر کوئی اس دوسری تصویر کو قبول کرے تو اس میں سرے سے اس واقعہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہے کہ حضرت علیؓ منصب خلافت کے امیدوار یا دعویدار تھے۔