جماعت

تاسیسِ جماعت

جماعت اسلامی پاکستان ملک کی سب بڑی اور پرانی اسلامی تحریک ہے۔ جس کا آغاز بیسویں صدی کے اسلامی مفکر سید ابوالاعلیٰ مودودی نے عصر حاضر میں اسلامی نظام کے احیاء کے لیے کیاتھا۔ قیام پاکستان سے قبل 3 شعبان 1360ھ (بمطابق 26 اگست1941ء) کو جماعت اسلامی قیام پذیر ہوئی اور یکم جون 1957ء بمطابق 2 ذی القعدہ 1376ھ کو اس کا دستور نافذ العمل ہوا۔

بنیادی عقیدہ

دستور جماعت کے مطابق جما عت اسلامی کا بنیادی عقیدہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ ہے۔ اس عقیدے کے پہلے جزو یعنی اللہ کے واحد الہٰ ہونے اور کسی دوسرے کے الہٰ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور آسمان اور جو کچھ آسمان و زمین میں ہے، سب کا خالق، پروردگار، مالک اور تکوینی و تشریعی حاکم صرف اللہ ہے، ان میں سے کسی حیثیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔


حکومت الہٰیہ یا اسلامی نظام زندگی کے قیام کے ذریعے رضائے الہٰی اور فلاح اخروی کا حصول اول روز سے جماعت کے پیش نظر رہا ہے اور آج بھی یہی ایک مقصد ہے جس کے لئے ہم کام کر رہے ہیں۔ اس کے سوا کوئی دوسرا مقصد نہ ہمارے پیش نظر کبھی تھا نہ آج ہے، نہ ان شاءاللہ کبھی ہوگا۔ آج تک جس کام سے بھی ہم نے دلچسپی لی ہے اسی مقصد کے لئے لی ہے، اور اسی حدتک لی ہے جس حد تک ہماری دانست میں اس کا تعلق اس مقصد سے تھا۔ جس چیز کو ہم قائم کرناچاہتے ہیں اس کاجامع نام قرآن کی اصطلاح میں”دین حق“ ہے، یعنی وہ نظامِ زندگی (دین) جو حق (پیغمبروں کی لائی ہوئی ہدایت کے مطابق اللہ کی بندگی واطاعت پر مبنی ہو۔ مگر اس کےلئے کبھی کبھی ہم نے ”حکومت الہٰیہ“ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے جس کا مفہوم دوسروں کے نزدیک چاہے جو کچھ بھی ہو، ہمارے نزدیک صرف یہ ہے کہ ”اللہ کو حاکمِ حقیقی مان کر پوری انفرادی و اجتماعی زندگی اس کی محکومیت میں بسر کرنا“۔ اس لحاظ سے یہ لفظ بالکل ”اسلام“ کا ہم معنی ہے۔ اسی بنا پر ہم ان تینوں اصطلاحوں(دین حق، حکومت الہٰیہ اور اسلام ) کو مترادف الفاظ کی طرح بولتے رہے ہیں۔ اور اس مقصد کے حصول کی جدوجہد کا نام ہم نے اقامتِ دین، شہادتِ حق اور تحریک اسلامی رکھا ہے۔ جن میں سے پہلے دو لفظ قرآن سے ماخوذ ہیں اور دوسرا لفظ عام فہم ہونے کی وجہ سے اختیار کیاگیا ہے۔ ان الفاظ میں سے کسی پر اگر لوگوں نے ناک بھوں چڑھائی ہے تو اس لئے کہ انہوں نے ہماری اصطلاح سے اپنا مفہوم مراد لے لیا،ہمارا مفہوم مراد لیتے تو امید نہ تھی کہ اس پر وہ ناراض ہوتے۔ (جماعت اسلامی کا مقصد، تاریخ اور لائحہ عمل:ص 1)

ہماری دعوت تمام انسانوں کے لیے ہے

ہمارے نزدیک اسلام ان لوگوں کی جائیداد نہیں ہے جو پہلے سے مسلمان ہیں بلکہ خدا نے یہ نعمت ان سب کے لئے بھیجی ہے جو انسان پید ا ہوئے ہیں خواہ وہ روئے زمین کے کسی خطے میں بستے ہوں۔ اس بناء پر ہمارا مقصد محض مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ پوری نوعِ انسانی کی زندگی کو دین حق پر قائم کرنا ہے۔ مقصد کی یہ وسعت آپ سے آپ تقاضا کرتی ہے۔ کہ ہماری اپیل عام رہے اور کسی مخصوص قوم کے مفاد کو مدّ نظر رکھ کر کوئی ایسا طرزِ عمل نہ اختیار کیاجائے جو اسلام کی اس عام اپیل کو نقصان پہنچانے والا ہو یا اس کی نقیض واقع ہوتا ہو۔ مسلمانوں سے ہم کو دلچسپی اس بناء پر نہیں ہے کہ ہم ان میں پیدا ہوئے ہیں اور وہ ہماری قوم ہیں بلکہ ان کے ساتھ ہماری دلچسپی کہ وجہ صرف یہ ہے کہ وہ اسلام کو مانتے ہیں، دنیا میں اس کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں، نوعِ انسانی تک اس کا پیغام پہنچانے کےلئے انہی کو ذریعہ بنایاجاسکتا ہے، اور دوسروں کےلئے اس پیغام کو مؤثر بنانا اس کے بغیر ممکن بھی نہیں ہے کہ جو لوگ پہلے سے مسلمان ہیں وہ اپنی انفرادی اجتماعی زندگی میں پورے اسلام کا صحیح نمونہ پیش کریں۔ اس بناء پر ہمارا راستہ ان لوگوں کے راستہ سے ہمیشہ الگ رہا ہے اور آج بھی الگ ہے جنہیں مسلمانوں سے اصل دلچسپی اس لئے ہے کہ وہ ان کی قوم ہیں اور اسلام سے یا تو کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے یا ہے تو اس وجہ سے ہے کہ وہ ان کی قوم و مذہب ہے۔ (جماعت اسلامی کا مقصد ،تاریخ اور لائحہ عمل:ص 2)

ہمارا تصور دین

”دین حق“ اور ”اقامت دین“ کے تصور میں بھی ہمارے اور بعض دوسرے لوگوں کے درمیان اختلاف ہے ہم دین کو محض پوجا پاٹ اور چند مخصوص مذہبی عقائد و رسوم کا مجموعہ نہیں سمجھتے بلکہ ہمارے نزدیک یہ لفظ طریقِ زندگی اور نظامِ حیات کا ہم معنی ہے اور اس کا دائرہ انسانی زندگی کے سارے پہلوؤں اور تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ زندگی کو الگ لگ حصوں میں بانٹ کر الگ الگ اسکیموں کے تحت چلایا جا سکتاہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ اس طرح کی تقسیم اگر کی بھی جائے تو وہ قائم نہیں رہ سکتی۔ کیونکہ انسانی زندگی کے مختلف پہلو انسانی جسم کے اعضاء کی طرح ایک دوسرے سے ممّیز ہونے کے باوجود آپس میں اس طرح پیوستہ ہیں کہ و ہ سب مل کر ایک کل بن جاتے ہیں اور ان کے اندر ایک ہی روح جاری و ساری ہوتی ہے۔ یہ روح اگر خدا اور آخرت سے بے نیازی اور تعلیمِ انبیاء سے بے تعلقی کی روح ہو تو پوری زندگی کا نظام ایک دین باطل بن کر رہتا ہے اور اس کے ساتھ خدا پرستانہ مذہب کا ضمیمہ اگر لگا کر رکھا بھی جائے تو مجموعی نظام کی فطرت بتدریج اس کو مضمحل کرتے کرتے آخر کار بالکل محو کر دیتی ہے۔ اور اگر یہ روح خدا اور آخرت پر ایمان اور تعلیمِ انبیاء کے اتباع کی روح ہو تو اس سے زندگی کا پورا نظام ایک دین حق بن جاتا ہے۔ جس کے حدود عمل میں ناخدا شناسی کا فتنہ اگر کہیں رہ بھی جائے تو زیادہ دیر تک پنپ نہیں سکتا۔ اس لئے ہم جب اقامت دین کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہمارا مطلب محض مسجدوں میں دین قائم کرنا، یا چند مذہبی عقائد اور اخلاقی احکام کی تبلیغ کردینا نہیں ہوتا۔بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ گھر اور مسجد، کالج اور منڈی ، تھانے اور چھاؤنی، ہائیکورٹ اور پارلیمنٹ، ایوان وزارت اور سفارت خانے، سب پر اس ہی ایک خدا کادین قائم کیا جائے جس کو ہم نے اپنا رب اور معبود تسلیم کیا ہے اور سب کا انتظام اسی ایک رسول کی تعلیم کے مطابق چلایا جائے جسے ہم اپنا ہادی برحق مان چکے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہماری ہر چیز کو مسلمان ہونا چاہیے۔ اپنی زندگی کے کسی پہلو کو بھی ہم شیطان کے حوالے نہیں کر سکتے۔ ہمارے ہاں سب کچھ خدا کا ہے۔ شیطان یا قیصر کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ (جماعت اسلامی کا مقصد ،تاریخ اور لائحہ عمل:ص 3)

مذہب اور سیاست

کوئی کہتا ہے کہ تم مذہب کی تبلیغ کرو۔ سیاست میں کیوں دخل دیتے ہو۔ مگر ہم 

اس بات کے قائل ہیں کہ ”جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی“ اب کیا یہ لوگ ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ ہماری سیاست پر چنگیزی مسلط رہے اور ہم مسجد میں ”مذہب“ کی تبلیغ کرتے رہیں؟اور آخر وہ مذہب کون سا ہے جس کی تبلیغ کے لیے وہ ہم سے کہہ رہے ہیں؟ اگر وہ پادریوں والا مذہب ہے جو سیاست میں دخل نہیں دیتا تو ہم اس پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور اگر وہ قرآن و حدیث کا مذہب ہے جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں۔ تو وہ سیاست میں محض دخل ہی نہیں دیتا بلکہ اس کو اپنا ایک جزو بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔

کوئی کہتا ہے کہ تم پہلے مذہبی لوگ تھے، اب سیاسی گروہ بن گئے ہو۔ حالانکہ ہم پر کبھی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب ہم غیر سیاسی مذہب کے لحاظ سے ”مذہبی“ رہے ہوں، اور آج خدا کی لعنت ہو ہم پر اگر ہم غیر مذہبی سیاست کے لحاظ سے سیاسی بن گئے ہوں۔ ہم تو اسلام کے پیرو ہیں اور اسی کو قائم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جتنا ”مذہبی “ ہے اتنے ہی ہم مذہبی ہیں اور ابتداء سے تھے۔ تم نے نہ کل ہمیں سمجھا تھا جب کہ ہم کو ”مذہبی“ گروہ قرار دیا۔ اور نہ آج سمجھا ہے جب کہ ہمارا نام ”سیاسی جماعت“ رکھا۔ سیاست اور مذہب میں تمہارا استاد یورپ ہے۔ اس لئے نہ تم نے اسلام کو سمجھا اور نہ ہمیں۔

کوئی کہتا ہے کہ الہٰ تو صرف معبود ہے تم نے یہ سیاسی حاکمیت اس کے لیے کہاں سے ثابت کردی؟ اور اس پر غضب یہ ہے کہ تم اس حاکمیت کو اللہ کے لئے مخصوص کرتے ہو اور انسانی حاکمیت کے منکر ہو۔ یہ تو خالص خارجیت ہے۔ کیونکہ تمہاری طرح خارجی بھی یہی کہتے تھے کہ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ مگر ہمارے نزدیک قرآن و حدیث کی رو سے خدا کا حق صرف عبادت و پرستش ہی نہیں بلکہ طاعت و عبدیت بھی ہے۔ ان میں سے جس حق میں بھی خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کیا جائے گا، شرک ہوگا، بندوں میں سے کسی کی اطاعت اگر کی جا سکتی ہے تو صرف خدا کے اذنِ شرعی کی بناء پر کی جاسکتی ہے اور وہ بھی خدا کی مقرر کردہ حدود کے اندر۔ رہا خدا سے بے نیاز ہو کر مستقل بالذات مطاع ہونا تو وہ تو رسول کا حق بھی نہیں ہے کجا کہ کسی انسانی ریاست یا سیاسی و تمدنی ادارے کا حق ہو۔ جس قانون، عدالت اور حکومت میں خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو مسند نہ مانا جائے، جس کا بنیادی اصول یہ ہو کہ اجتماعی زندگی کے جملہ معاملات میں اصول اور فروع تجویز کرنا انسانوں کا اپنا کام ہے اور جس میں قانون ساز مجلسیں خدائی احکام کی طرف رجوع کرنے کی سرے سے ضرورت ہی نہ تسلیم کرتی ہوں اور عملاً ان کے خلاف قوانین بناتی ہوں اس کے اطاعت کے لزوم تو درکنار جواز تک کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہے۔ اس بلا کو زیادہ سے زیادہ صرف برداشت کیا جا سکتا ہے جب کہ انسان اس کے پنجہ اقتداد میں گرفتار ہوجائے۔ مگر جو شخص ایسی حکومتوں کے حقِ فرمانروائی کو تسلیم کرتا ہے اور اس بات کو ایک اصول برحق کی حیثیت سے مانتا ہے۔ کہ خدائی ہدایت کوچھوڑ کر انسان بطور خود اپنے تمدن، سیاست اور معیشت کے اصول و قوانین وضع کر لینے کے مجاز ہیں۔ وہ اگر خدا کو مانتا ہے تو شرک میں مبتلا ہے ورنہ زندقہ میں۔ ہمارے مسلک کو ”خارجیت“ سے تعبیر کرنا مذہب اہل سنت اور مذہبِ خوارج، دونوں سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ علماء اہل سنت کی لکھی ہوئی کتب اصول میں سے جس کو چاہے اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ اس میں یہی لکھا ملے گا کہ حکم دینے کا حق اللہ کے لئے خاص ہے۔ مثال کے طور پر علامہ آمدی اپنی کتاب الاحکام فی اصول الاحکام میں لکھتے ہیں کہ اعلم انہ لا حاکم سوی اللہ ولاحکم الا ماحکم بہ ”جان لو کہ حاکم اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے اور حکم صرف وہ ہے جو اللہ نے دیا ہے“۔


اسلامی حکومت

چھ اور لوگ ہیں جو چندرا چندرا کر پوچھتے ہیں کہ حکومت الہٰیہ یا اسلامی حکومت کا قیام کس نبی کی دعوت کا مقصود رہا ہے؟ مگر ہم پوچھتے ہیں کہ یہ قرآن اور توراة میں عقائد و عبادات کے ساتھ دیوانی اور فوجداری قوانین اور صلح جنگ کے احکام، اور معیشت و معاشرت کے قواعد وضوابط، اور سیاسی تنظیم کے اصول بیان ہوئے ہیں۔ کیا یہ سب محض تفنن طبع کے لیے ہیں؟ کیا یہ آپ کے اختیار تمیزی پر چھوڑا گیا ہے کہ کتاب اللہ کی تعلیمات میں سے جس چیز کو چاہیں جزو دین مانیں اور جسے چاہیں غیر ضروری زوائد میں شمار کریں؟ کیا انبیاء بنی اسرائیل علیھم السلام اور خاتم النبیین محمدﷺ نے جو سیاسی نظام قائم کیے وہ ان کی پیغمبرانہ دعوت کے مقاصد میں سے نہ تھے؟ محض ملاقات سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے اپنا شوق فرمانروائی پورا کیا تھا۔ کیا دنیا میں کوئی قانون اس لئے بھی بنایا جاتا ہے کہ صرف اس کی تلاوت کرلی جائے، اس کا نفاذ سرے سے مقصود ہی نہ ہو؟ کیا واقعی ایمان اسی چیز کا نام ہے کہ ہم روز اپنی نمازوں میں کتاب اللہ کی وہ آیات پڑھیں جن میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کے متعلق اصول اور احکام بیان ہوئے ہیں اور رات دن ہماری زندگی کے اکثر و بیشتر معاملات ان کے خلاف چلتے رہیں۔


ہمارا مسلک

خدا کی بندگی جس پر ہم پورے نظام زندگی کو قائم کرنا چاہتے ہیں، اس کے بارے میں بھی ہمارا ایک واضح مسلک ہے اور وہ مختلف گروہوں کو مختلف وجوہ سے پسند نہیں آتا۔ ہمارے نزدیک ہر شخص اس کا مختار نہیں ہے کہ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق جس طرح چاہے خدا کی بندگی کرے بلکہ اس کی ایک ہی صحیح صورت ہے اور وہ اس شریعت کی پابندی ہے جو محمد ﷺ لے کر آئے ہیں۔ اس شریعت کے معاملے میں کسی مسلمان کے اس حق کو ہم تسلیم نہیں کرتے کہ اس کی جن باتوں کوچاہے قبول کرے اور جن باتوں کو چاہے رد کردے۔ بلکہ ہم اسلام کے معنی ہی اطاعت حکمِ خداوندی اوراتباع شریعتِ محمدی ﷺ کے سمجھتے ہیں۔ شریعت کے علم کا ذریعہ ہمارے نزدیک صرف قرآن پاک نہیں ہے بلکہ حدیث رسولﷺ بھی ہے اور قرآن و حدیث سے استدلال کا صحیح طریقہ ہمارے نزدیک یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے نظریات پر خدا اور رسول کی ہدایات کو ڈھالے بلکہ یہ ہے کہ آدمی اپنے نظریات کو خدا اور رسول کی ہدایات پر ڈھالے پھر ہم نہ تو تقلید جامد کے قائل ہیں جس میں اجتہاد کی جگہ نہ ہو اور نہ ایسے اجتہاد کے قائل ہیں کہ ہر بعد کی نسل اپنے سے پہلے کی نسلوں کے سارے کام پر پانی پھیر دے اور بالکل نئے سرے سے ساری عمارت اٹھانے کی کوشش کرے۔ اس مسلک کا ہر جزو ایسا ہے جس سے ہماری قوم کا کوئی نہ کوئی گروہ ہم سے ناراض ہے۔ کوئی سرے سے خدا کی بندگی کا قائل ہی نہیں ہے۔ کوئی شریعت سے بے نیاز ہو کر اپنی صواب دید کے مطابق خدا کی بندگی کرنا چاہتا ہے۔ کوئی شریعت میں اپنا اختیار چاہتا ہے اور اس کا مطالبہ یہ ہے کہ جوکچھ اسے پسند ہے وہ اس شریت میں رہے اور جو اسے پسند نہیں ہے وہ شریعت سے خارج ہو جائے۔ کوئی قرآن و حدیث سے قطع نظر کر کے اپنے من گھڑت  اصولوں کا نام اسلام رکھے ہوئے ہے کوئی حدیث کو چھوڑ کر صرف قرآن کو مانتا ہے ۔کوئی اصول اور نظریات کہیں باہر سے لے آیا ہے یا اپنے دل سے گھڑ لایا ہے اور پھر زبردستی قرآن و حدیث کے ارشادات کو ان پر ڈھالنے کی کوشش کررہا ہے۔ کسی کوتقلید جامد پر اصرار ہے اور کوئی تمام پچھلے آئمہ کے کارناموں کودریا برد کرکے نیا اجتہاد کرنا چاہتا ہے۔


اختلاف مسلک کا حق

ہمارا راستہ ان سب گروہوں سے الگ ہے اور ہم مجبور ہیں کہ ان سے اختلاف بھی کریں اور ان کے علی الرغم اپنے مسلک کی تبلیغ بھی کریں اسی طرح دوسرے کے بھی اس حق کو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ وہ جس معاملے میں بھی ہم کو غلطی پر سمجھتے ہیں اس میں ہم سے اختلاف کریں اور ہمارے علی الرغم اپنے مسلک کی تبلیغ کریں۔ اب ہر شخص جو ہندوستان و پاکستان میں رہتا ہے اور مختلف گروہوں کے لٹریچر پر نظر رکھتا ہے۔ خود ہی یہ دیکھ سکتا ہے کہ اپنی تنقید و تبلیغ میں ہمارا رویہ کیا رہا ہے اور ہمارے مخالفین نے جواب میں کس تہذیب و دیانت اور معقولیت کاثبوت دیا ہے۔ (جماعت اسلامی کا مقصد، تاریخ اور لائحہ عمل:ص)