جماعت اسلامی مہنگائی اور منی بجٹ کے خلاف 101دھرنے دے گی،سراج الحق
2سال پہلے
لاہور18جنوری2022ء
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ ملک کا معاشی سقوط ہو چکا، نہ سلیکٹڈ کو فکر ہے اور نہ سلیکٹرز کو پرواہ۔ تینوں بڑی جماعتوں کی خاموش انڈرسٹیڈنگ ہے، پی ٹی آئی، ن لیگ اور پی پی پی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آئیں۔ عوام مہنگائی، غربت سے کراہ رہے ہیں، معاشی بحران کے نتیجے میں ہمارا ایٹمی پروگرام رول بیک ہو سکتا ہے۔ جماعت اسلامی مہنگائی اور منی بجٹ کے خلاف 101دھرنے دے گی۔ پی ٹی آئی کی ملک اور عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف کراچی سے خیبر تک احتجاج ہو گا۔ حکومت نے منی بجٹ واپس نہ لیا، اشیائے خورودونوش کی قیمتوں میں پچاس فیصد کمی نہ کی، گورنر سٹیٹ بنک کو عہدے سے نہ ہٹایا اور سودی معیشت کے خاتمے کے لیے اقدامات نہ اٹھائے تو حتمی 101واں دھرنا اسلام آباد میں دیا جائے گا جو حکمران کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔ سابقہ حکمرانوں نے معیشت تباہ کی اور عوام دشمن پالیسیاں بنائیں، پی ٹی آئی نے تمام حدیں کراس کر دیں۔ ملک پر عالمی ساہوکاروں کا قبضہ ہو چکا۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور ایف اے ٹی ایف کے ہاتھوں ملکی خود مختاری کا سودا کر دیا گیا۔ قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ خودمختاری اور خود انحصاری کی منزل کے حصول کے لیے جماعت اسلامی کا دست و بازو بنے۔ تمام طبقہ ہائے فکر کے لوگ، خواتین، بچے ہمارے دھرنوں میں شرکت کریں گے۔ ملک میں اسلامی انقلاب پرامن جمہوری طریقے سے برپا کیاجائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے منصورہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی امیر العظیم، سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف اور ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد اصغر بھی ان کے ہمراہ تھے۔ سراج الحق نے کہا کہ دھرنوں کے شیڈول کا اعلان تین دنوں میں کردیا جائے گا۔
کراچی کے کالے بلدیاتی قانون کو مسترد کرتے ہوئے امیر جماعت نے پیپلزپارٹی سے کہا کہ اگر وہ جمہوری جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے تو 18دنوں سے سندھ اسمبلی کے باہر بیٹھے لوگوں کی بات سنے۔ سندھ کا بلدیاتی قانون بنیادی جمہوریتوں کے اصولوں اور آئین سے متصادم ہے۔
انھوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ حکمرانوں نے گوادر کے عوام کو دھوکا دیا۔ ”گوادر کو حق دو تحریک“ کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن سے جومعاہدہ ہوا تھا، حکومت نے 32دن گزر جانے کے بعد بھی اس کی ایک شق کی پیروی نہیں کی۔ حکمرانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ بلوچستان کے عوام کی محرومیوں میں اضافہ سے ملک میں مزید مسائل جنم لیں گے۔
امیر جماعت نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساڑھے تین برسوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 50 روپے تک کمی ہوئی۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں سو فیصد سے تین سو فیصد اضافہ ہوا۔ چینی جو تین سال قبل 55روپے تھی اب 125روپے کلو، آٹا 35روپے کلو سے 70روپے کلو، ملکی قرضے 25ہزار روپے ارب سے 56ہزار ارب تک پہنچ گئے۔ کھاد کی بوری دس ہزار روپے کی مل رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور میں ادویات کی قیمتوں میں 13بار اضافہ ہوا۔ سوا دو کروڑ نوجوان بے روزگار ہوئے اور 70لاکھ نوجوان نشے کے عادی ہو گئے۔اس صورت حال میں حکومت نے 343ارب کے مزید ٹیکسز لگا دیے۔ حکومت معیشت کو سنبھالنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت سکینڈلز اور بحرانوں کی زد میں رہی۔ چینی بحران میں قوم کو 184ارب کا ٹیکہ لگا، پیٹرول شارٹیج سیکنڈل میں مافیاز نے 25ارب کمائے، آٹا گندم بحران میں عوام کی جیبوں پر 220ارب کا ڈاکہ ڈالا گیا۔ انھوں نے کہا کہ مافیاز وزیراعظم کے اردگرد بیٹھے ہیں۔ سکینڈلز کی انکوائری رپورٹس میں پی ٹی آئی کے وزرا اور اہم افراد کے نام آئے ہیں، مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
امیر جماعت نے کہا کہ پاناما لیکس اور پنڈوراپیپرز میں تینوں بڑی پارٹیوں سے وابستہ افرادکے نام آئے ہیں، ان کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں طاقتور افراد کو کوئی نہیں پوچھتا۔ تینوں جماعتیں جاگیرداروں اور وڈیروں کے کلب، اور سٹیٹس کو کی علمبردار ہیں۔ حکمرانوں کی پالیسیوں کی وجہ سے قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے84فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ تینوں جماعتوں نے بدترین طرزحکمران کی مثالیں قائم کیں۔ انھوں نے کہا کہ ملک کے تمام طبقات پریشان ہیں۔ قومی سلامتی کے مشیر نے خود اعتراف کر لیا ہے کہ حکومت کی پالیسیاں امریکا کے حکم پر تشکیل پاتی ہیں۔ سٹیٹ بنک کے گورنر سے لے کر وزیرخزانہ تک سبھی آئی ایم ایف کی ترجمانی کررہے ہیں۔ وزیرخزانہ کہتے ہیں کہ منی بجٹ سے غریب پر کوئی اثر نہیں ہو گا، شاید ان کی نظرمیں غریب ارب پتی اشرافیہ ہے جن پر یقینی طور پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی فرسودہ نظام اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمرانی کو تسلیم نہیں کرتی۔ ہم پاکستان میں اسلامی انقلاب چاہتے ہیں۔ انھوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ جماعت اسلامی کی پرامن جدوجہد کا حصہ بنیں۔