جماعت اسلامی کسی سہارے سے نہیں عوام کی حمایت سے اسمبلیوں میں جائے گی، کسی سیاسی اتحاد کاحصہ نہیں بنیں گے۔ حافظ نعیم الرحمن
4مہا پہلے
لاہور25 جون 2024ء
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ عوام نے جنھیں مکمل طور پر مسترد کیا انھیں زبردستی مکمل طور پر مسلط کر دیا گیا۔ قومی انتخابات میں پیپلز پارٹی، ن لیگ اور ایم کیو ایم کو نوازا گیا، کراچی کی سیٹ اس لیے چھوڑی کہ جھوٹ کی بنیاد پر اسمبلی نہیں جاسکتے، نواز شریف چیمپئن ہیں تو دھاندلی سے جیتی نشست واپس کریں، کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے حقیقت یہ ہے ن لیگ سیاسی پارٹی کے طور پر وجود کھو چکی ہے۔ سیاسی جماعتیں سنجیدہ ہیں تو مذاکرات کے لیے پلیٹ فارم مہیا کر سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو سب سے مل سکتی ہے اور ڈائیلاگ بھی کر سکتی ہے۔
منصورہ میں مختلف ٹی وی چینلز کے بیوروچیفس سے ملاقات کے دوران امیر جماعت نے کہا کہ لوڈشیڈنگ، مہنگی بجلی اور ظالمانہ بجٹ کے خلاف اتوار کو ملک گیر احتجاج سے مزاحمتی تحریک کا آغاز کر دیا، جمعہ 28 جون کو بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے دفاتر کے باہر مظاہرے ہوں گے، لینڈ ریفارمز، فوڈ سکیورٹی، توانائی، کسانوں اور زراعت کی بہتری اورالیکشن میں متناسب نمائندگی کا اصول جماعت اسلامی کی پرامن مزاحمتی تحریک کے ایجنڈے میں شامل ہے، اب عوامی ایشوز پر بھرپور تحریک چلے گی۔ سیکرٹری جنرل امیر العظیم اور سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف بھی اس موقع پر موجود تھے۔
امیر جماعت نے کہا کہ فوجی آپریشنز عوام اور فوج دونوں کے فائدے میں نہیں، بلوچستان آپریشن سے لے کر آج تک ہونے والے آپریشنز سے یہ ثابت ہو چکا ہے۔ فوجی آپریشن سے نئے دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں، بیرونی قوتوں کو مداخلت کے مواقع ملتے ہیں۔ جماعت اسلامی نئے آپریشن عزم استحکام پاکستان کے حق میں نہیں، آپریشن کے معاملے کو پارلیمنٹ میں لانا چاہیے تھا، حکومت نے سیاسی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا، احتجاج کے بعد اب حکومتی موقف بھی تبدیل ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی آپریشن عوام اور فوج کے درمیان دوریاں پیدا کرتا ہے، یہ مسائل کا حل نہیں، 2001 سے شروع ہونے والی دہشتگردی کے خلاف جنگ نے ہمارا بہت نقصان کیا، یہ جنگ ہماری معیشت کا 200 ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان کرچکی ہے، یہ اندھی لڑائی ہم کب تک لڑیں گے؟ قبائل، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کب تک اس آگ میں جلیں گے؟ سوال یہ بھی ہے کہ ہر آپریشن کے بعد نئے آپریشن کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ پاکستان، افغانستان اور چین مل کر خطے میں امن قائم کرسکتے ہیں،انہی خطوط پر آگے بڑھنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کے معاملے پر ہم سے غلطیاں ہوئیں تاہم اس کا ہرگز یہ جواز نہیں کہ افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی ہو، اس نازک صورتحال میں افغانستان سے محاذ آرائی بھی مسئلے کا حل نہیں، طالبان سے بات چیت کرناہوگی، افغان حکومت پر بھی لازم ہے کہ حالات کا ادراک کرے اورمثبت کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان سے بات چیت کرے، دونوں ممالک بامعنی مذاکرات کا آغاز کریں۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو اسلام آباد اور کراچی میں فارم 45 مہیا کیے، اسلام آباد میں الیکشن ٹربیونل بلائے گا تو ضرور جائیں گے، الیکشن میں دھاندلی سے متعلق جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کا یکساں موقف ہے، حق بات کریں گے بھلے کسی کے فائدے یا نقصان میں جائے، پروپیگنڈہ سے فارم 47 والے مضبوط ہوں گے۔
امیر جماعت نے کہا کہ گندم خریداری کے مسئلہ پر صرف جماعت اسلامی نے آواز بلند کی اور کسانوں کی آواز بنی، گندم بحران کے بعد اب کپاس کا بحران ہو گیاہے،کاشت کے اہداف پورے نہیں ہوئے،حکمرانوں نے چھوٹے کسانوں پر ظلم کیا، جاگیرداروں کو نوازا جارہا ہے، یہ لوگ ٹیکس بھی نہیں دیتے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے پاس توانائی بحران کا حل موجود تھے، جماعت اسلامی واحد سیاسی پارٹی ہے جو نیپرا کاروائی میں حصہ لیتی ہے، انہوں نے کہا کہ بجلی بلوں میں بے تحاشا ٹیکسز کو قبول نہیں کرسکتے، قوم کب تک آئی پی پیز معاہدوں کے عوض کیپیسٹی چارجز ادا کرتی رہے گی، ان ظالمانہ معاہدوں پر نظرثانی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرز کو ہتھکڑیاں پہنا کر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ان کی تضحیک کی، جماعت اسلامی نے ڈاکٹرز کی اندھی حمایت نہیں کی، معاملے کی شفاف انکوائری ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی آزادی اظہار رائے کی علمبردار ہے، میڈیا اور سوشل میڈیا پر پابندیاں قبول نہیں۔ انھوں نے کہا کہ بنو قابل پروگرام کے ذریعے دس لاکھ آئی ٹی پروفیشنل تیار کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کسی سہارے سے نہیں عوام کی حمایت سے اسمبلیوں میں جائے گی، کسی سیاسی اتحاد کاحصہ نہیں بنیں گے۔