ماضی گواہ ہے کہ 1971 میں سانحہ مشرقی پاکستان کے موقع پر امریکہ نے بھارت کی سرپرستی اور سہولت کاری کی۔ لیاقت بلوچ
7مہا پہلے
لاہور30مارچ 2024ء
قائم مقام امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے امریکی صدر جوبائیڈن کی طرف سے وزیراعظم شہباز شریف کو لکھے گئے خط پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کیساتھ تعلقات نبھانے میں بڑے نقصانات اٹھائے اس کے باوجود امریکہ نے پاکستان کے اسٹریٹیجک ترجیحات کے حوالے سے ہمیشہ پاکستان کو دھوکہ دیا اور پیٹھ میں چھرا گھومپا، اس لیے اس خط کے پیچھے پوشیدہ عوامل کا جاننا ضروری ہے۔ ماضی گواہ ہے کہ 1971 میں سانحہ مشرقی پاکستان کے موقع پر امریکہ نے بھارت کی سرپرستی اور سہولت کاری کی۔ افغانستان کے معاملے میں بھی امریکہ نے پاکستان کو دو مرتبہ اپنے مفاد میں استعمال کیا لیکن امریکہ و نیٹو فورسز کی بدترین شکست اور افغانستان سے انخلاء کے بعد افغانستان میں پاکستان کے خلاف نفرتوں کی بارودی سرنگیں بچھادیں۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالنے کی بجائے بھارت کو فاشزم کی کھلی چھوٹ دے کر کشمیریوں پر ظلم، جبر، بربریت اور انسانیت سوز مظالم کی انتہا میں بھارت کی سہولت کاری کی۔ ایران-پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ قومی معیشت کے لیے انتہائی ناگزیر ہونے کے باوجود پاکستان پر اس منصوبے کو ترک کرنے کے لیے مسلسل دباؤ اور بندشیں عائد کررکھی ہیں۔ پاکستان میں جاری معاشی بحران کے خاتمہ میں مدد کی بجائے آئی ایم ایف پیکج کے تحت کڑی شرائط عائد کرکے پاکستان کو لامتناہی اقتصادی مشکلات اور مالیاتی بحرانوں کے دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ پاک-چین اقتصادی راہداری جیسے گیم چینجر منصوبے میں بھی طرح طرح کی مشکلات اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کیے جارہے ہیں، اسی لیے اب یہ امر بھی اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی پے در پے کارروائیوں کے لیے بھارت کو امریکہ کی مکمل سرپرستی اور حمایت حاصل ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں پر صیہونی اسرائیلی ظلم و بربریت کا پشتیبان بھی امریکہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکی قیادت اور حکومت اسرائیلی دہشت گردی، جنگی جرائم اور انسانیت سوز نسل کشی کی سرپرستی کی وجہ سے خود اپنے ہی ملک میں عوامی نفرت اور غم و غصے کا شکار ہے۔
لیاقت بلوچ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف جان لیں کہ جنرل پرویز مشرف نے بھی ایک امریکی ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہوکر سرنڈر کیا تھا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اب موجودہ وزیراعظم بھی ایک امریکی خط پر لٹو بن جائیں۔ بلومبرگ جیسے امریکی مفاداتی ادارے کی طرف سے ان کی تعریفوں کے پل باندھنا تو کچھ ایسے ہی گُل کھلانے کی طرف اشارہ دے رہی ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو ایک باوقار، خوددار ملک کی حیثیت سے اپنا مقام منوانے کے لیے ضروری ہے کہ داخلی سلامتی اور امن و امان سے متعلق معاملات ٹھیک کیے جائیں۔ انتخاب 2024ء نے ریاست اور عوام کے درمیان بداعتمادی کی جو دیوار کھڑی کردی ہے اُسے بلاتاخیر ڈھاکر اعتماد میں بدلنا وقت کی ضرورت ہے۔ سرکاری، حکومتی سطح پر غیرترقیاتی اخراجات کی بھرمار، عیاشیاں، کرپشن اور قومی وسائل کا بے دریغ استعمال و ضیاع قومی معیشت کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ عوام کو انصاف فراہم کرنے والا نظامِ عدل خود غیرمحفوظ اور عوام کو انصاف دینے سے محروم ہے۔ سیاسی قیادت کے درمیان ڈائیلاگ اور مفاہمت کے راستے بند ہونے سے قومی سیاست بدترین پولرائزیشن، شدت اور جذبہ انتقام سے دوچار ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت، اپوزیشن اور ریاستی ادارے مل بیٹھ کر صورتِ حال کو درست سمت کی طرف لے جانے میں اپنا کردار ادا کریں، تاکہ خارجہ محاذ پر موجود چیلنجز کا قومی اتفاقِ رائے کے ساتھ جواب دیا جاسکے، وگرنہ کمزور اور بے مقصد حکمتِ عملی مزید نقصانات کا باعث بنے گی۔