استحکام کا راستہ پولنگ سٹیشن سے ہو کر گزرتا ہے۔سراج الحق
1سال پہلے
لاہور04اکتوبر 2023ء
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ استحکام کا راستہ پولنگ سٹیشن سے ہو کر گزرتا ہے۔ انتخابات سے قبل سردی، گرمی اور معیشت بہتربنانے کی باتیں کرنے والے نوشتہ دیوار پڑھ چکے اور شکست سے خائف ہیں۔ الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے، الیکشن ڈیکوریشن نہیں، صاف اور شفاف ہوں۔
منصورہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نگران حکومت کو پالیسی معاملات میں فیصلہ سازی کا اختیار نہیں، ان کی طرف سے بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافہ عوام پر ظلم ہے۔ نگران سیٹ اپ قوم کی بجائے آئی ایم ایف کے مفادات کی نگرانی کررہا ہے۔
قبل ازیں امیر جماعت نے مرکزی ذمہ داران کے اجلاس کی صدارت کی۔میٹنگ میں الیکشن تیاریوں، ملک کی مجموعی صورتحال زیربحث آئی۔ امیر جماعت نے صحافیوں کو بتایا کہ جماعت اسلامی نے قومی اسمبلی وصوبائی اسمبلی کی نشستوں پر 80فیصد امیدواران فائنل کرلیے ہیں۔ نائب امرا لیاقت بلوچ،میاں اسلم، سیکرٹری جنرل امیرالعظیم، سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف اور شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک پریس کانفرنس میں شریک تھے۔
ایک سوال کے جواب میں سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی غریب آدمی کے مسائل پر جدوجہد کو جہاد فی سبیل اللہ سمجھتی ہے۔ ہم نے بجلی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کے خلاف احتجاجی تحریک کاآغاز کیا۔ دو ستمبرکی کامیاب ملک گیر ہڑتال کے بعد مختلف شہروں میں عوامی مظاہرے کیے۔ لاہور، پشاور، کوئٹہ گورنر ہاؤسز کے باہر دھرنے دے، اب 6اکتوبر کو کراچی میں گورنرہاؤس کے باہر تاریخی دھرنا ہوگا۔مقاصد کے حصول تک تحریک جاری رہے گی۔ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ باربار آزمائے جاچکے، ان کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑے گا، اصل مسئلہ فرسودہ نظام ہے، جسے بدلنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن سے قبل خاص حلقوں میں اربوں کے فنڈز جاری کرنا پری پول دھاندلی ہے، ان معاملات کو متعلقہ فورمز پر بھرپور طریقے سے اٹھائیں گے۔
امیر جماعت نے آئی پی پیز معاہدوں کو مہنگی بجلی کی اصل جڑ قرار دیتے ہوئے ان کے فرانزک آڈٹ کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اب تک غریب عوام کی جیبوں سے 88کمپنیوں جن میں سے بیشتر کے مالک پاکستانی ہیں، کو پونے تین ٹریلین ادا کیے جا چکے ہیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ سابقہ حکمرانوں نے یہ معاہدے ڈالروں میں کیے جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ اگر ہزار ارب بجلی کی پیداوار کا اصل خرچ ہے تو دوہزار ارب پرائیویٹ کمپنیوں کو کیپسٹی چارجز کی مد میں ادا کر دیے جاتے ہیں۔ سرکاری اشرافیہ 220ارب کی مفت بجلی استعمال کرتی ہے، ہزار ارب کے قریب چوری اور لائن لاسز ہیں، بلوں میں 15اقسام کے 48فیصد ٹیکسز شامل کیے جاتے ہیں، ایک عام آدمی پانچ چوروں کا بوجھ برداشت کرتا ہے۔ اب نئے میٹرز لگانے کی آڑ میں غریب صارف کو لوٹنے کی ایک اور سازش کی بنیاد رکھی جا رہی ہے، نئے میٹرز موٹروے پر دوڑتی گاڑی کی سپیڈ سے چلتے ہیں۔
سراج الحق نے کہا کہ موجودہ مہنگائی نے 76سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے جس سے دس کروڑ لوگ خطہ غربت سے نیچے چلے گئے۔ لوگوں کی قوت خرید ختم ہو چکی ہے، خودکشیوں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں دو حکومتوں نے معیشت تباہ کی اور قوم کو عالمی مالیاتی اداروں کا غلام بنایا۔ حکمرانوں نے اپنی جائدادیں اور کرپشن کیسز معاف کرانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا، انھوں نے عوام کو عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں اس طرح فروخت کیا جیسے مغل بادشاہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے سودا کیا تھا۔ نگران حکومت نے بھی آتے ہی آئی ایم ایف کو خوش کرنے کا آغاز کر دیا، قومی اداروں کو فروخت کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں، حکومتوں کے نزدیک معیشت کی بہتری کا واحد حل قرضے ہیں، اب تک آئی ایم ایف سے 23بار قرض لیا جا چکا، لیکن مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا، مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان آیا، جس کے نتیجے میں آج غریب کا چولھا بجھ چکا ہے، ملک پوری دنیا میں تماشا بن گیا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک نے آنے والی حکومت کے لیے بھی پالیسیاں تشکیل دے دی ہیں، ہزاروں ارب کے نئے ٹیکسزتجویز کیے گئے ہیں۔
امیر جماعت نے کہا کہ سابقہ حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے وسائل اور ہیومن کیپیٹل سے مالامال ملک بھکاری بن چکا ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکمران کرپشن کے خلاف ایکشن لیتے جو کہ سالانہ پانچ ہزار ارب روپے لیکن کرپشن میں ملوث لوگوں سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس صورت حال سے نکلنے کا حل سینہ کوبی نہیں بلکہ قوم کو اپنے حق کے لیے اٹھنا ہو گا۔ جماعت اسلامی اس وقت واحد متبادل کے طور پر موجود ہے جو ملک کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنا سکتی ہے