اسلامی نظام معیشت سودی نظام کا متبادل ہے۔سراج الحق
1سال پہلے
لاہور13 جولائی 2023ئ
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت نے وعدہ کے باوجود سودی نظام کے خاتمہ کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا، اسلامی ملک کا پورا معاشی نظام انگریز کے دیے ہوئے1839ءربا ایکٹ پر کھڑا ہے، آئین پاکستان سود کے خاتمے کی بات کرتا ہے، اسلامی نظریاتی کونسل کی واضح سفارشات ہیں اور وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ بھی موجود ہے، لیکن سود کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو اس وقت 22فیصد ہے، دنیا میں اس تناسب کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کر کے معیشت بہتر ہو گی نہ ترقی اور خوشحالی آئے گی۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے سودی نظام، آئی ایم ایف کی مداخلت اور معیشت کو درپیش دیگر چیلنجز سے متعلق مقامی ہال میں مشاورتی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے میزبانی کے فرائض سرانجام دیے۔ سیمینار میں نائب امیر جماعت اسلامی اسد اللہ بھٹو ایڈووکیٹ، ایم این اے عبدالاکبر چترالی، امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی جاوید قصوری، امیر جماعت اسلامی لاہور ضیا الدین انصاری ایڈووکیٹ، معروف کالم نگار اور صحافی مجیب الرحمن شامی، قیوم نظامی، ڈاکٹر حسین احمد پراچہ، حافظ زبیر احمد ظہیر، مولانا زاہد محمود قاسمی، پروفیسر ڈاکٹر میاں محمد اکرم سمیت معاشی ماہرین، علمائے کرام اور صحافیوں نے خطاب کیا۔
سراج الحق نے کہا کہ موجودہ حکومت کے سربراہ ایک مذہبی شخصیت ہیں جنھیں اتحادیوں پر دیگر بہت سے تحفظات ہیں مگر انھوں نے سود کا مسئلہ کبھی نہیںاٹھایا، حکومت کی مدت 12اگست کو ختم ہو جائے گی، توقع تھی کہ حکومتی اتحاد کا حصہ مذہبی جماعت کے رہنما کم از کم سود کے خاتمے کے لیے اپنے اتحادیوں کو راضی کر لیں گے، مگر یہ کارخیر سر انجام نہ دیا جا سکا۔ وزیرخزانہ نے کراچی میں علما کی موجودگی میں سیمینار میں وعدہ کیا کہ وہ سودی نظام ختم کریں گے، عہد پورا نہ ہوا۔ آئی ایم ایف کے قرضوں پر خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں، حکمران ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام سے قبل 22دفعہ قرض لیا گیا، کوئی بہتری نہ آئی۔ بجٹ کا 7303ارب سودی قرضوں کی ادائیگی میں چلا جائے گا۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے ملک کا ہر شہری پریشان ہے، پنجاب کے ملازمین تنخواہوں میں اضافہ کے لیے دھرنا دیے بیٹھے ہیں، احتجاج میں خواتین بھی شامل ہیں جو سخت گرمی کے موسم میں اپنے مطالبات کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں، مگر ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ حکمران اپنی مراعات اور غیرترقیاتی اخراجات کم کرنے کے لیے راضی نہیں، مقروض ملک کی 85رکنی کابینہ ہے۔ حکومتی اخراجات کم کر کے چھوٹے ملازمین اور غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بہت کچھ کیاجا سکتا ہے، لیکن ایوانوں میں بیٹھے جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ کاروں کو لوگوںکے مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔
امیر جماعت نے کہا کہ اسلامی نظام معیشت سودی نظام کا متبادل ہے، یہ نظام نافذ ہو جائے تو سوا سات کروڑ افراد زکوٰة دینے کے اہل ہو جائیں گے، عُشر سے غربت ختم ہو سکتی ہے، یہ آزمودہ فارمولا ہے، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے دور میں اس نظام کو عملی طور پر نافذ کر کے انسانیت کی ترقی و خوشحالی کی بنیادیں رکھی گئیں۔ انھوں نے کہا کہ بطور سابق وزیرخزانہ خیبرپختونخوا انھوں نے صوبہ میں سودی بنکاری نظام کو ختم کیا اور کے پی کو قرض فری صوبہ بنایا۔ ہمیں رجعت پسندی چھوڑ کر ترقی یافتہ سوچ اپنانا ہو گی، اللہ تعالیٰ کا دیا گیا نظام انسانوں کی ترقی اور فلاح کا ضامن ہے۔ جماعت اسلامی کے منشور میں سب سے پہلا وعدہ سودی نظام کے خاتمے کا کیا گیا ہے، اقتدار میں آ کر جماعت اسلامی منشور پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی اور اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی جائے گی۔