News Detail Banner

ملک میں دو اقتصادی نظام ایک ساتھ نہیں چل سکتے، قوم کو آئندہ بجٹ سود سے پاک چاہیے۔ سراج الحق

1سال پہلے

لاہور26دسمبر2022ء

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ ملک میں دو اقتصادی نظام ایک ساتھ نہیں چل سکتے، قوم کو آئندہ بجٹ سود سے پاک چاہیے۔ سودی نظام معیشت آئین پاکستان کی نفی ہے، ملک کے 99فیصد عوام غیرسودی نظام چاہتے ہیں۔ حکومت ایک طرف معیشت کو سود سے پاک کرنے کے اعلانات کر رہی ہے دوسری جانب سٹیٹ بنک نے انٹرسٹ ریٹ میں اضافہ کر دیا۔ مرکزی بنک کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے چنگل سے نکالا جائے اور مالیاتی اداروں کے دباؤ پر اس کی خودمختاری کے فیصلے کو واپس لیا جائے۔ سٹیٹ بنک نوٹیفکیشن جاری کرے کہ کوئی بھی بنک ملک میں سودی کاروبار نہیں کرے گا، جو بنک ایسا کرے اس کا لائسنس منسوخ کیا جائے، آئندہ کے لیے ایسے بنکوں کو ریگولیٹ کیا جائے جو اسلامی بنکاری کریں۔ حکومت مخلص ہے تو صنعتی، زرعی، انفرادی قرضوں پر سود ختم کر کے اصل زر واپس لے، جماعت اسلامی کی طرف سے قومی اسمبلی میں متعارف کرایا جانے والا امتناع سود بل پاس کرے، حکومت وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ پر من و عن عمل کرے اور سود سے پاک معیشت کا واضح روڈ میپ دے۔ قوم کو حکمرانوں پر اعتماد نہیں، اعلانات کی بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ وہ اسلام آبادمیں ”حرمتِ سود اور عملی اقدامات“ کے موضوع پر قومی سیمینار کی صدارت کررہے تھے۔ تقریب سے تنظیم اسلامی کے امیر شجاع الدین شیخ، سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان، سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود، پی ٹی آئی کے رہنما ڈاکٹر بابر اعوان، نائب امرا جماعت اسلامی پروفیسر محمد ابراہیم، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، ایم این اے عبدالاکبر چترالی، ماہر معیشت ڈاکٹر طاہر منصوری، ڈاکٹر عتیق الرحمن و دیگر ماہرین نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر جاری اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں مختلف بنکوں کی جانب سے دائرکی گئی اپیلیں واپس کرائے، جو بنک اپیلیں واپس نہیں لے رہے سٹیٹ بنک ان کے لائسنس منسوخ کرے۔ حکومت طے کرے کہ ملک میں اسلامک بنکنگ کے علاوہ کوئی اور بنکاری نظام نہیں چل سکتا، عام آدمی کو سود سے آزاد کیا جائے، اسلامی بانڈز جاری کیے جائیں اور وفاقی شرعی عدالت کا قانونی سٹیٹس نافذ کیا جائے۔

سراج الحق نے کہا کہ سودی نظام شیطانی نظام ہے اور پاکستان کے عوام ہی نہیں پوری انسانیت کے مسائل کی جڑ ہے، اس نظام سے صرف ایک قلیل طبقہ جو کہ شاید دو فیصد سے بھی کم ہے، فیض یاب ہو رہا ہے جب کہ کروڑوں اربوں انسان غربت، بے روزگاری، مہنگائی، ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں سودی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نفرتیں بڑھ رہی ہیں، کبھی امریکا تو کبھی یورپ اور مشرقی بعید میں آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے دفاتر کے سامنے اور ظالم سرمایہ دارانہ نظام کے محافظوں کے خلاف مظاہرے ہوتے ہیں، پوری دنیا میں محروم طبقات سود کی لعنت کے خلاف آوازیں بلند کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آج پوری دنیا کو اسلام کے فطرتی نظام کی ضرورت ہے، اس سے ہی انسانیت کی فلاح اور کامیابی ممکن ہے۔

امیر جماعت نے کہا کہ قائداعظمؒ کی ہدایات کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک کو ان کی رحلت کے بعد سودی نظام میں جکڑ دیا گیا اور یہ سلسلہ گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے۔ آئین پاکستان کی دفعات اور 31علما کے 22 نکات پر مشتمل اعلامیہ کی خلاف ورزی ہوئی، اسلامی نظریاتی کونسل کی ہدایات کا مذاق اڑایا گیا اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو نافذ نہیں کیا جا رہا۔ انھوں نے کہا کہ سودخوروں سے توقع نہیں کہ وہ سودی نظام ختم کریں گے، حکمران عوام سے جھوٹ بولتے ہیں، یہ نااہل اور نامراد ثابت ہو چکے، ان کے ہوتے ہوئے عوام بنیادی حقوق سے بھی محروم رہیں گے، حکمران معاشی اور سیاسی دہشت گرد اور ملک کے تمام مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ قوم اپنے معاشی، سماجی اور سیاسی حقوق کے حصول اور ان کے تحفظ کے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دے۔

مشترکہ اعلامیہ میں وزارت خزانہ کی جانب سے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کمیٹی کے قیام کو خوش آئند کہا گیا ہے، مگر حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس کمیٹی میں علمائے کرام اور بنکنگ اور معیشت کو سمجھنے والے اسلامی سکالرز کی تعداد کو بڑھایا جائے اور کمیٹی کو مستقل شریعہ سپروائزری بورڈمیں تبدیل کیا جائے اور جسے آئین و قانونی تحفظ حاصل ہو اور اس بورڈ کی رہنمائی اور نگرانی میں حکومت اسلامی نظام معیشت کی تشکیل اور ترقی کے لیے قانون سازی کا عمل جلد عمل مکمل کرے۔