News Detail Banner

وفاقی شرعی عدالت کا 5 سال میں سود کے خاتمے کا فیصلہ خوش آئند ہے،سراج الحق

1سال پہلے

لاہور28 اپریل 2022ء

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے 27رمضان المبارک کوسودی نظام کے خاتمے کا تاریخی فیصلہ دے دیا، پوری قوم مبارک باد کی مستحق ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ غلامی کے معاہدوں کو مسترد کیا جائے۔ عوام عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی کا طوق مزید گلے میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔ حکومت کا امتحان شروع ہو چکا، ربا فری نظام متعارف کرانے میں لیت و لعل کی تو قوم کا ہاتھ اور حکمرانوں کا گریبان ہو گا۔ عوام سودی نظام سے نجات چاہتے ہیں۔ تاریخی فیصلے پر قوم سے جمعۃ الوداع کو ملک بھر میں یوم تشکر منانے کی اپیل کرتے ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے پہرہ دیں گے اور حکومت کو مجبور کریں گے کہ وہ جلد از جلد اسلامی معیشت کا ماڈل اپنا کر قوم کو کرپٹ سرمایہ دارانہ نظام سے نجات دلائے۔ فیصلے پرعمل درآمد سے متعلق لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے جماعت اسلامی عید الفطر کے بعد اسلامی معیشت کے ماہرین، وکلا اور مذہبی سکالرز سے مشاورت کا آغاز کرے گی۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ اسلامی بنک کاری کی جانب پیش قدمی کرے۔ ملک میں پہلے ہی 20فیصد اسلامی بنک کاری کا نظام رائج ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے وفاقی شرعی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ نائب امرا جماعت اسلامی لیاقت بلوچ، ڈاکٹر فرید پراچہ، پروفیسرمحمد ابراہیم، میاں محمد اسلم، امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ، تنظیم اسلامی کے رہنما حافظ عاکف سعیداور لیگل ٹیم کے افراد قیصر امام، سیف اللہ گوندل، امداد اللہ اور یونس میو بھی اس موقع پر موجود تھے۔ قبل ازیں وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف جماعت اسلامی کی درخواست پر 19سال بعد فیصلہ سنا دیا جس میں ملک کے معاشی نظام کو اسلامی اصولوں پر ڈھالنا حکومت کی شرعی اور قانونی ذمہ داری قرار دی گئی ہے۔ چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت محمد نور مسکن زئی کی سربراہی میں جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین شیخ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے حکومت کو سودی نظام کے خاتمے اور اسلامی معیشت کا ماڈل اپنانے کے لیے پانچ سال کا وقت دیا ہے اور اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ حکومت ہر سال کی پیش رفت پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرے گی۔

امیر جماعت نے فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ 27رمضان المبارک کے روز اسلامیان برصغیر نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی تھی اور اب وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے سے استعماری نظام سے جان چھڑانے کا راستہ بھی اسی مبارک دن کے موقع پر ہموار ہو گیا۔ انھوں نے اس موقع پر ان تمام شخصیات بشمول وکلا، علمائے اکرام اور مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے شہری حضرات کا شکریہ ادا کیا اور انھیں مبارک باد دی جنھوں نے عدالت میں سماعت کے دوران جماعت اسلامی کا ساتھ دیا۔ انھوں نے کہاکہ اگرچہ عدالت نے حکومت کو سودی نظام ختم کرنے کے لیے پانچ سال دیے ہیں جو کہ معیشت کو اسلامی اصولوں پر ڈھالنے کے لیے کافی وقت ہے تاہم ہم یہ چاہتے ہیں کہ حکومت فوری طورپر اس آئینی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اقدامات شروع کر دے۔ ملک بیرونی قرضوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ 2013ء سے 2018ء تک بیرونی قرضے 24ارب ڈالر تھے جو کہ اب 50ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان کے بجٹ کا نصف سے زیادہ قرضوں پر سود کی ادائیگی میں صرف ہو جاتا ہے۔ سودی سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے معیشت تباہ حال اور قوم غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ غربت، پسماندگی،بے روزگاری اور مہنگائی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکمرانوں نے اللہ تعالیٰ کے نظام کی بجائے سود کی صورت میں اس کے ساتھ جنگ شروع کر رکھی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے 1991ء میں سود پر پابندی عائد کی تھی تاہم اس وقت مسلم لیگ کی حکومت نے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر کے اس پر سٹے آرڈر حاصل کر لیا تھا۔ اعلیٰ عدلیہ نے بعد میں ریویو کے لیے کیس کو وفاقی شرعی عدالت بھیج دیا اور اب 19سال بعد ایک دفعہ پھر آئینی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت نے سودی معیشت کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ حکومت اور سٹیٹ بنک کی ذمہ داری ہے کہ اس فیصلے پر عمل درآمد کو ممکن بنائیں۔ 

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہا کہ حکومت انسداد سود کا روڈ میپ دے تاکہ قوم مطمئن ہو۔ انھوں نے کہا کہ سود اللہ تعالیٰ سے جنگ ہے اور سودی نظام کو اپنا کر ہم کبھی ترقی اور خوشحالی حاصل نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر فرید پراچہ کا کہنا تھا کہ عدالت نے سود کے خاتمے کے لیے پیش رفت پر حکومت سے ہر سال رپورٹ طلب کی ہے۔انھوں نے بتایا کہ عدالت نے 31دسمبر 2027ء تک ربا سے مکمل پاک نظام رائج کرنے کے احکامات صادر کیے ہیں۔ عدالت کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 38پر عمل درآمد ہوتا، تو دہائیاں قبل سود کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ وفاقی شرعی عدالت نے کہا کہ انٹرسٹ ایکٹ 1839 مکمل طور پر شریعت کے خلاف ہے۔سود کے لیے سہولت کاری کرنے والے قوانین اور شقیں غیر شرعی ہیں۔ 

شجاع الدین شیخ نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے سودی نظام معیشت کو مضبوط کیا۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے بعد حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی نظام معیشت اپنائے۔ انھوں نے کہا کہ اسلامیان برصغیر نے یہ ملک اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں اللہ تعالیٰ کا نافذ ہو، مگر پون صدی گزرنے کے باوجود ہماری معیشت استعماری نظام کے تحت چل رہی ہے۔