News Detail Banner

ملک گیراجتماع عام بدل دو نظام کا آغاز،لاکھوں مردو خواتین کی شرکت،مینار پاکستان کے اطراف کی جگہ کم پڑگئی

2گھنٹے پہلے

ملک گیراجتماع عام بدل دو نظام کا آغاز،لاکھوں مردو خواتین کی شرکت،مینار پاکستان کے اطراف کی جگہ کم پڑگئی
78 سال سے ملک پر قابض حکمران ٹولے نے قوم کو ناامیدی اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔جماعت اسلامی قوم کو مایوس نہیں چھوڑ سکتی،حافظ نعیم الرحمن کا افتتاحی خطاب
اجتماع عام کا سلوگن بدل دو نظام ہے،ہم ایسا نظام چاہتے ہیں کہ جس میں حاکمیت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ہونی چاہیے،امیر جماعت اسلامی پاکستان
حکمران سن لیں،اگرفلسطین کے مسئلے پر ابراہم ایکارڈ کا حصہ بننے کی کوشش کی گئی تو 25 کروڑ عوام انہیں نشانِ عبرت بنادیں گے
جماعت اسلامی پاکستان کے تحت لاہور مینار پاکستان میں عظیم الشان و تاریخی ملک گیر اجتماع عام بدل دو نظام کا آغاز ہوگیا۔ اجتماع میں ملک کے تمام صوبوں سے وابستہ افراد نے لاکھوں کی تعداد میں مردو خواتین و مختلف شعبہ زندگی سے وابستہ افراد نے شرکت کی، مینار پاکستان، اقبال پارک، بادشاہی مسجد کی جگہ تنگ پڑ گئی۔شرکاء میں زبردست جوش و خروش اور سرد موسم کے باجود پُر عزم۔ اجتماع عام کا باقاعدہ آغاز قاری وقار احمد کی تلاوت کلام پاک سے کیا گیا۔ جبکہ سلمان طارق نے نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کی۔امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کے خطاب سے قبل اجتماع میں شریک لاکھوں شرکاء اور قائدین نے کھڑے ہوکر قومی ترانہ پڑھا۔ حافظ نعیم الرحمن نے لاہور مینار پاکستان میں 21تا 23 نومبر منعقدہ اجتماع عام کے لاکھوں شرکاء سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اجتماع عام کا سلوگن بدل دو نظام ہے،ہم ایسا نظام چاہتے ہیں کہ جس میں حاکمیت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ہونی چاہیے،پاکستان میں موجود دستور قرآن و سنت سے متصادم نہیں ہونا چاہیے،دستور کے مطابق قرآن و سنت کے منافی کسی بھی قسم کی قانون سازی کسی صورت نہیں کی جائے گی۔78 سال سے موجود ملک پر قابض انگریزوں کے غلاموں،حکمران ٹولے نے قوم کو ناامیدی اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔جماعت اسلامی قوم کو مایوس نہیں چھوڑ سکتی،ہم نوجوانوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔پورے ملک سے آئے ہوئے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔حافظ نعیم الرحمن نے واضح کیا کہ 27 ویں ترمیم والے سن لیں کہ اللہ کے نزدیک کسی وڈیرے جاگیردار، آرمی چیف یا صدر کو استثنی حاصل نہیں۔پاکستان کے حکمران سمجھ لیں کہ اگرفلسطین کے مسئلے پر ابراہم ایکارڈ کا حصہ بننے کی کوشش کی گئی تو 25 کروڑ عوام انہیں نشانِ عبرت بنادیں گے،78 سال قبل لاہور مینار پاکستان میں قرارداد پاکستان کے ساتھ ایک اور قرارداد اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے قرارداد بھی شامل تھی، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا، امریکہ انسانیت کا کھلا دشمن ہے جس نے ہیروشیما ناگاساکی پر بم باری کی۔ امریکہ خود ریڈ انڈین کو قتل کرکے وجود میں آیا تھا۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ ہر وہ قرارداد جو مظلوم کے حق پہ ہو اس پر ویٹو کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، کشمیر کے معاملے پر کسی بھی قسم کی سودے بازی قبول نہیں کی جائے گی۔پاک بھارت جنگ میں پوری قوم نے مل کر فوج کا ساتھ دیا لیکن ہمارے حکمرانوں نے امریکی صدر ٹرمپ کے کہنے پر جنگ بندی کی،اگر یہ جنگ 2 روز اور جاری رہتی تو بھارت کو آئندہ کبھی بھی حملہ کرنے کی ہمت نہ ہوتی، ٹرمپ نے جنگ بندی میں کشمیر کے معاملے پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کا کہا تھا، حکمران بتائیں کہ کشمیر کے مسئلے پر کیوں بات نہیں کی گئی۔ پاکستان کسی کی ذاتی جاگیر نہیں بلکہ 25 کروڑ عوام کا ملک ہے۔ اجتماع عام کے تیسرے اور آخری روز آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا اور ظلم کے نظام کی خلاف ملک میں ہر کونے سے زبردست تحریک شروع کیا جائے گی،کل انٹرنیشنل سیشن میں 45 ممالک سے 120مندوبین تشریف لائیں گے۔اجتماع عام سے نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان و ناظم اجتماع عام لیاقت بلوچ اور مرکزی جنرل سیکرٹری امیر العظیم نے بھی خطاب کیا۔ حافظ نعیم الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہاکہ آج مینار پاکستان 329ایکڑ پر مشتمل چھوٹا پڑگیا، ملک کے تمام صوبوں سے عوام بڑی تعداد میں شریک ہوئے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں کارکنان نے اجتماع عام کے انعقاد میں دن رات ایک کرکے یہ فریضہ انجام دیا ہے، حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی سکریٹری ڈاکٹر حمیرا طارق کی قیادت میں خواتین کے لیے علیحدہ پنڈال سجانے کا انتظام کیا گیا۔پاکستان میں موجود کوئی بھی پارٹی اس نوعیت کا اجتماع اور انتظامات منعقد نہیں کرسکتی۔انہوں نے کہاکہ مولانا مودودی نے دین کے اصول کی جانب سب کو یکجا کیا اور بتایا کہ اقامت دین کے بغیر ہم کچھ نہیں کرسکتے۔اقامت دین کا مطلب صرف نماز روزہ نہیں بلکہ معاشرتی و معاشی معاملات میں بھی دین کے مطابق عمل کیا جائے گا۔مولانا مودودی کا لگایا گیا پودا آج پھل دار ہوگیا ہے۔ آج اپنے عزم کو دہرانے کی ضرورت ہے۔ 84 سال قبل قائم ہونے والی جماعت 74 افراد پر مشتمل تھی۔ جماعت اسلامی محض سیاسی جماعت نہیں جو شخصیات، وصیت، خاندان، اندرونی و بیرونی اسٹبلشمنٹ کے اشاروں پر چلتی ہو۔جماعت اسلامی کی سیاست ذاتی غرض کے لیے نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے نظام کے قیام کے لیے ہے۔ ہم مسلکوں کا احترام کرتے ہیں فرقہ واریت کو تسلیم نہیں کرتے،مسلکوں اور فرقوں کی بنیاد پر امت کو تقسیم نہیں بلکہ جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔مکمل نظام صرف اور اسلام میں ہی ہے۔ اسلام یہودیوں، عیسائیوں اور ہر مذہب کے لوگوں کو برابر حق دیتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بیوروکریسی جسے قوم کا خادم ہونا چاہیے وہ قوم کی حاکم ہوتی ہے۔انگریزوں کی غلام اور ان کی نسلیں آج بھی ملک پر مسلط ہیں۔چند لوگ جو خود تو بہت پڑھے لکھے ہوتے ہیں لیکن قوم کو جاہل بنا کر رکھتے ہیں۔20 فیصد لوگوں کی اجارہ داری 80 فیصد لوگوں پر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند لوگوں کی اجارہ داری قائم ہے اور پاکستان میں کٹھ پتلیاں کام کر رہی ہیں،جماعت اسلامی اسلام کے غلبے کی تحریک ہے۔ کشمیر، فلسطین اور غزہ کے لوگوں کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔ہم اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی نے جس نظریے کے مطابق تحریک بنائی اسی تحریک کو نئے جذبے کے ساتھ آگے بڑھائیں گے۔ مولانا مودودی کی فکر کے مطابق ہم تنظیم و تربیت اور عوامی حمایت کے ذریعے آگے بڑھیں گے۔ہم زیر زمین نہیں بلکہ برسر زمینی جدو جہد کر کے اقتدار میں آئیں گے۔فارم 47 اور کسی کی آشیرباد سے اقتدار میں نہیں آئیں گے۔جماعت اسلامی میں قوم پرستی اور فرقہ پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جماعت اسلامی اجتماع عام میں بلوچستان کے عوام کے حقوق کے لیے بھی مینار پاکستان لاہور میں مقدمہ پیش کریں گے۔ امریکی غلامی کو چھوڑ کر بلوچوں، پختونوں اور سندھیوں سے مل کر بات کی جائے۔ اندرون سندھ میں کچے اور پکے کے ڈاکوں کا راج ہے۔ پنجاب میں بھی غریب کسانوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ گندم اور چینی کی امپورٹ کرکے اس میں اربوں روپے کی کرپشن کی جاتی ہے،لیاقت بلوچ نے اجتماع عام کے لاکھوں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سب سے پہلے میں دل کی گہرائیوں سے ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے تمام شرکاء کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ آج آپ کی موجودگی اس بات کی گواہ ہے کہ جماعت اسلامی کا پیغام لوگوں کے دلوں میں اتر چکا ہے، اور اس قافلے کے قدم مضبوط ہیں۔جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ نے اس عظیم الشان اجتماعِ عام کا فیصلہ کیا تھا، اور آج وہ ہے لمحہ جو آپ سب کی شرکت سے تاریخ رقم کر رہا ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اجتماعِ عام کا ایسا منظر کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہ اجتماع، نظم و ضبط، عزم و حوصلے اور زندہ جذبوں کی نئی مثال قائم کر رہا ہے۔میں ان تمام کارکنان و ذمہ داران کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے مشکل ترین مراحل سے گزر کر اس اجتماع کے انتظامات کو تکمیل تک پہنچایا۔ مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود ہمارے کارکنان ہر مرحلے پر ڈٹے رہے۔ جماعت اسلامی نے مجھ پر ناظمِ اجتماع کی ذمہ داری ڈالی ہے، اور میں پوری دیانت داری سے اسے ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ انتظامات کے لیے 17 نائب ناظمین اور 47 شعبہ جات قائم کیے گئے جنہوں نے دن رات محنت کر کے اس اجتماع کو کامیاب بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔آج مینارِ پاکستان لاہور میں جگہ کم پڑ گئی ہے اور بادشاہی مسجد کے احاطے تک لوگ موجود ہیں۔ یہ منظر اس بات کا اعلان ہے کہ یہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا، ہمہ گیر اور پرجوش اجتماعِ عام ہے۔الحمدللہ! جماعت اسلامی کے کارکنان مکمل نظم و ضبط کے ساتھ معاملات کو سنبھال رہے ہیں۔یہ بھی واضح کر دوں کہ اسٹالز پر موجود ہر فرد کو ہدایت ہے کہ وہ طے شدہ ریٹ سے زائد کا طلب نہ کرے۔ جو بھی خلاف ورزی کرے گا، اسے فوراً رخصت کر دیا جائے گا۔شرکاءِ اجتماع کے لیے کھانے اور پانی کے بڑے پیمانے پر انتظامات کیے گئے ہیں، اور اس میں کوئی کمی نہیں چھوڑی گئی۔اجتماعِ عام کی کامیابی میں اسلامی جمعیت طلبہ، جمعیت طلبہ عربیہ، نیشنل لیبر فیڈریشن، اور بالخصوص الخدمت فاؤنڈیشن نے قابلِ ستائش کردار ادا کیا ہے۔میں اپنے کارکنان سے ایک بار پھر گزارش کروں گا کہ انتظامی گاڑیوں کے راستوں کو استعمال نہ کریں، نظم و ضبط کا اعلیٰ نمونہ پیش کریں اور قربانی اور ایثار کا جذبہ ہر قدم پر نمایاں رکھیں۔ہم سب ہی اس اجتماع کے میزبان بھی ہیں اور مہمان بھی،اور اس اجتماع کی کامیابی ہمارے باہمی تعاون سے ہی ممکن ہے۔ میں اہلِ لاہور کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے مینارِ پاکستان اور بادشاہی مسجد میں جگہ تنگ ہو جانے کے باعث دور دراز سے آنے والے مہمانوں کو رہائش کا موقع دینے کے لیے ایثار کے جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لیے مختص رہائش گاہیں چھوڑ کر خود پنڈال میں رہائش کا فیصلہ کیا۔ یہی وہ روح ہے جو ہماری تحریک کو مضبوط بناتی ہے۔