News Detail Banner

چند لوگ ملک کے وسائل کو کھا رہے ہیں اور انہوں نے عوام کو عذاب میں مبتلا کررکھا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن

2دن پہلے

لاہو ر14ستمبر 2024ء

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت کی رٹ، اپوزیشن کی ناک اور جرنیل کی چھڑی ملکی سالمیت اور استحکام سے زیادہ اہم نہیں، کے پی اور بلوچستان میں بالخصوص اور پورے ملک میں بالعموم امن کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز مل کر بیٹھیں اور بات کریں،افغانستان اور ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کو مل کر بٹھانے کے لیے جماعت اسلامی کردار ادا کرنے کو تیار ہے، بنوں اور لکی مروت میں معاملات جرگے سے حل ہوسکتے ہیں تو پورے ملک کا جرگہ کیوں کامیاب نہیں ہوگا؟ کوئی اپنے آپ کو آئین سے ماورا نہ سمجھے، جو جتنی اہم پوزیشن پر ہے آئین و قانون کے احترام کی اس پر اتنی ہی بڑی ذمہ داری ہے۔ ادارے اپنی آئینی حدود میں واپس جائیں۔ معیشت میں بہتری کے لیے آئی پی پیز معاہدے ختم اور پہلے مرحلے میں شرح سود دس فیصد تک لائی جائے، سود کو بتدریج کم کرکے اس سے جان چھڑانا ہوگی، پٹرولیم لیوی میں کمی اور عالمی مارکیٹ کی قیمت کا درست تعین کرکے پٹرول کے نرخ پونے دوسو روپے لٹر تک لائے جائیں۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن مکمل کی جائے۔ بجلی کی اصل پیداواری لاگت کا تعین کرکے پورے ملک میں یکساں ٹیرف نافذ کیا جائے۔ جماعت اسلامی کی ممبرشپ مہم کا ہدف پچاس لاکھ نئے ممبرز ہیں، بارہ ربیع الاول کے بعد ممبرشپ کمپین کے دوسرے فیز کا آغاز ہوگا، اس کے بعد عوامی کمیٹیاں بنائیں گے اور عوام کے حقوق کے لیے ملک گیر منظم جدوجہد کا آغاز ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منصورہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیکرٹری جنرل امیرالعظیم اور سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف بھی اس موقع پر موجود تھے۔

حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ چند لوگ ملک کے وسائل کو کھا رہے ہیں اور انہوں نے عوام کو عذاب میں مبتلا کررکھا ہے، آئی ایم ایف کو پاکستانی عوام سے ناانصافی نظر نہیں آتی۔ آئی پی پیز اور بنکوں نے مل کر لوٹ مچارکھی ہے اور حکومتیں ان کی سرپرستی کرتی ہیں، یہ ظلم وناانصافی بند کرنا ہوگی۔ کرپشن اور کرپٹ افراد سے جان چھڑا کر ہی ملک آگے بڑھ سکتا ہے۔ جماعت اسلامی انہی مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ ہم نے کامیاب دھرنا دیا اور ملک کی تاریخ کی کامیاب ترین شٹرڈاؤن ہڑتال کرائی۔ اب ممبر شپ کمپین جاری ہے جس کا بھرپور رسپانس مل رہا ہے، اللہ نے چاہا تو مقاصد میں کامیابی ملے گی۔ 

امیر جماعت نے کہا کہ کے پی اور بلوچستان کے حالات انتہائی خراب ہیں، کے پی کے جنوبی اضلاع میں پولیس احتجاج کررہی ہے تو پنجاب کے جنوب میں کچے کے ڈاکو پولیس پر حملے کرتے ہیں، اسی طرح سندھ میں کچے اور پکے کے ڈاکوؤں کا راج ہے۔ بلوچستان اور کے پی میں حالات کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے ملک کو امریکہ کی جنگ میں دھکیلا، اس وقت سے لے کر آج تک ان علاقوں میں امن قائم نہ ہوسکا، غیرملکی ایجنسیوں کی مداخلت عام ہے، فاٹا میں فوج کی تعیناتی کے بل پر پہلے آصف زرداری اور بعد میں عمران خان کی حکومت میں عارف علوی نے بطور صدر دستخط کیے۔ فوج بھی ہماری ہے اور پولیس بھی ہماری ہے، سب کو مل کر اس مسئلہ کا حل نکالنا ہوگا، یہ ملک کی سلامتی اور استحکام کا معاملہ ہے اسے کسی کو اپنی انا اور ضد نہیں بنانا چاہیے، جماعت اسلامی کسی آپریشن کے حق میں نہیں، ہمیں افغانستان سے بات کرنا ہوگی، طالبان حکومت بھی ذمہ داری کا مظاہرہ ہے، پاکستانی اداروں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیوں ان پر الزامات عائد ہوتے ہیں، بارڈر سمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کی جائے، عوام اور فوج میں اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں، شترمرغ کی طرح سر ریت میں چھپانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔صحافیوں کے سوالات  کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پورا کو افغانستان سے ڈائریکٹ مذاکرات کی بات نہیں کرنی چاہیے تھی، وہ کابل اور اسلام آباد میں سہولت کاری کی بات کرتے تو وفاقی حکومت بیک فُٹ پر جاتی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمنٹ اور ان کی فیمیلیز کو ہراساں کرنے کے سلمان اکرم راجہ کے بیان کا نوٹس لے کر شفاف تحقیقات کی جائیں، واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے، یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ عوامی نمائندوں کو مسلسل پریشان اور ہراساں کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر سیاسی پارٹی کو پرامن احتجاج اور جلسوں کی اجازت ہونی چاہیے۔ 

امیر جماعت نے کہا کہ حکومت سپریم کورٹ ججز کی عمر اور تعداد کے حوالے سے بل نہ لائے،پارلیمنٹ میں اکثریت فارم 47سے مسلط افراد کی ہے،  جعلی نمائندگی پر مشتمل پارلیمنٹ کی پاس کردہ آئینی ترمیم کی کوئی وقعت نہیں ہوگی، متنازعہ آئینی ترمیم کی عوام میں کوئی پزیرائی بھی نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کو چاہیے تھا کہ واضح موقف دیکر ابہام دور کردیتے، امید ہے چیف جسٹس کہیں گے نہ تو ایکسٹینشن چاہیے نہ یہ عمر پر ترمیم لانے کا وقت ہے۔ انہوں نے کہا موجودہ حالات کے تناظر میں آئینی ترمیم انتہائی تشویشناک اور متنازعہ تصور ہوگی۔