پاکستان میں آئی پی پیز 1994سے بننا شروع ہوئے ہیں.حافظ نعیم الرحمن
4مہا پہلے
لاہور13 جولائی 2024ء
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ وہ ایک جوڈیشل کمیشن بنائے اور فارم 45کی بنیاد پر ہر سیٹ کا فیصلہ کرے تاکہ عوام میں جمہوریت اور انتخابات کے حوالے سے اعتماد پیدا ہو،عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اخلاقی طور پر کوئی حیثیت باقی نہیں رہی،چیف الیکشن کمشنر فوری طورپر استعفیٰ دیں،وہ پارٹیاں جو انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اوراسٹیبلشمنٹ کے خلاف نعرے لگارہی تھی انہوں نے مخصوص نشستیں لے لیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی جزوی قبول کرلیا،سپریم کورٹ کا فیصلہ آدھا نہیں پورا قبول کیا جائے،عوام کو ریلیف دینے کا وعدہ کرنے والے حکمران آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی کے بلوں میں ظالمانہ ٹیکس اور پٹرول کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ کررہے ہیں،جماعت اسلامی عوام دشمن بجٹ،بجلی کے بھاری بلوں وظالمانہ سلیب سسٹم اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کی بھرمار کے خلاف ملک بھر میں حق دو عوام کو تحریک چلارہی ہے،اتوار 14جولائی کوملک بھر میں احتجاج اور دھرنے ہوں گے،ہم سڑکوں پر بھی نکلیں گے،عدالتوں میں بھی جائیں گے،26جولائی کو اسلام آباد میں عظیم الشان وتاریخی دھرنا ہوگا،پورے پاکستان سے قافلے پہنچیں گے،جماعت اسلامی کے سوا کوئی بھی جماعت عوا م کی ترجمانی کرتی نظر نہیں آرہی، ہمارا مطالبہ ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر عائدٹیکس واپس لیے جائیں، گیس، پیٹرول، آٹے، چینی، دال کی قیمتوں میں کمی کی جائے، رائٹ آف انفارمیشن کے تحت قوم کا یہ حق ہے کہ اس کے سامنے تمام معاہدے لائیں جائیں اور آئی پی پیز کو بے نقاب کیا جائے۔ ن لیگ،پیپلز پارٹی،پی ٹی آئی بتائیں کہ ان کی حکومتوں نے ان آئی پی پیز کے ساتھ کیا رویہ رکھا، اور یہ مسئلہ حل کیوں نہیں کیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو ادارہ نورحق میں موجودہ سیاسی صورتحال،بدترین معاشی حالات اور 26جولائی کو اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پرامیرکراچی منعم ظفرخان،نائب امیر محمد اسحاق خان، سیکرٹری کراچی توفیق الدین صدیقی، رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق،سیکرٹری اطلاعات کراچی زاہد عسکری، رکن سٹی کونسل و ڈپٹی پارلیمانی لیڈر قاضی صدر الدین،پبلک ایڈ کمیٹی کے سکریٹری نجیب ایوبی و دیگر موجود تھے۔
حافظ نعیم الرحمن نے مزیدکہاکہ الیکشن کمیشن نے آئین و قانون،جمہوریت اور انتخابات کو بری طرح روندا ہے اور فارم 45کے بجائے فارم 47کی بنیاد پر مخصوص پارٹیوں کو عوام پر مسلط کیا ہے،77مخصوص نشستیں ان جماعتوں کو دیدی تھیں جن کی اپنی نشستیں بھی 10فیصد نہیں ہیں،ایم کیو ایم کو توفارم 45کے مطابق کراچی سے ایک لاکھ ووٹ بھی نہیں ملے لیکن اسے فارم 47کی بنیاد پر 15قومی اسمبلی کی نشستیں اور دودرجن سے زائد صوبائی اور مخصوص نشستیں دے دی گئیں جس کی کوئی حیثیت نہیں۔انہوں نے کہا کہ ضروری ہے کہ اب ملک میں الیکشن ریفارمز ہوں،متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات ہوں،وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرح بلدیاتی حکومت ہونی چاہیے،سیاسی پارٹیوں کے اندر جمہوریت ہونی چاہیے،وصیت و وراثت کا نظام ختم ہونا چاہیے،تعلیمی اداروں میں طلبہ کو یونین سازی کا حق دیا جائے اس سلسلے میں سپریم کورٹ کو باقاعدہ ڈائریکشن دینی چاہیے جس کے نتیجے میں قانون سازی ہو۔
امیر جماعت نے کہا کہ پاکستان میں آئی پی پیز 1994سے بننا شروع ہوئے ہیں، 30سال کے دوران جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں سب اس کی ذمہ دار ہیں پہلے کہا گیا کہ لوڈشیڈنگ بہت بڑا مسئلہ ہے اس لیے ہمیں آئی پی پیز کی طرف جانا پڑے گالیکن آج پورے پاکستان میں لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے،تیس سال میں ہماری پیداواری صلاحیت 13ہزارمیگاواٹ سے 41ہزار میگا واٹ تک پہنچ گئی ہے لیکن لوڈ شیڈنگ پھر بھی ہورہی ہے اورعوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، فائدہ حکومت اور اس کے منظورنظر آئی پی پیز کو ہوا یا ان بیرونی آئی پی پیز کو ہوا جن سے عوام دشمن اور اندھے معاہدے ہوئے اور قوم سے چھپائے گئے،ہمارے پاس سستی بجلی کے ذرائع موجود ہیں، اس کے باوجود ہمیں مہنگی بجلی بنانے کے پیسے ان آئی پی پیز کو دینے پڑتے ہیں اور اٹھائیس سو ارب روپے کیپسٹی چارجز پاکستانی قوم بجلی کے بلوں کے ذریعے اور بنیادی ضرورت کی اشیاء میں جو سیلز ٹیکس لگاہے اس میں ادا کررہی ہے اور یہ پیسے تنخواہ دار طبقہ ادا کررہا ہے، اس طبقے نے 2018میں 76ارب روپے اور 2024میں 375ارب روپے ٹیکس کی مد میں ادا کیے ہیں جب کہ جاگیر دار طبقے نے صرف 5 ارب روپے بھی جمع نہیں کرائے۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم نے مل کر سندھ اور کراچی کو تباہ کیا، صوبے میں شدید بدامنی ہے،لوگوں کو اغوا کیا جارہاہے، بالائی سندھ میں اقلیتی برادری کو خاص ٹارگٹ کیا جارہا ہے،وڈیروں اور جاگیرداروں اور حکومت کی پشت پناہی کے بغیر یہ کچے اور پکے کے ڈاکو کوئی حیثیت نہیں رکھتے،قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ایجنسیاں،رینجرز اور پولیس کیا کررہی ہیں؟ان پر اتنا بجٹ کیوں خرچ ہورہاہے؟ پیپلز پارٹی جمہوریت کی چیمپئن تو بہت بنتی ہے لیکن پی ایف سی ایوارڈ جاری نہیں کرتی، سندھ کے تین ہزار ارب روپے کے بجٹ میں سے صرف پانچ فیصد بلدیاتی اداروں کے لیے رکھے گئے ہیں اور افسوسناک بات یہ ہے کہ کراچی کو خیرات کی طرح صرف ڈھائی فیصد دیا گیا ہے، کے فور منصوبہ تاحال تعطل کا شکار ہے،کے الیکٹرک کی کارکردگی کے بعد کہتے ہیں پورے ملک میں ڈسکوز ڈسٹربیوشن کمپنیوں کو پرائیویٹائز کریں گے۔