مالی نظام، متفرقات تنقید و محاسبہ، قواعد سازی، دستور میں ترمیم، توضیح اصطلاحات
حصہ دہم
مالی نظام
۱- بیت المال کا قیام
دفعہ ۹۴: (۱) ہر مقامی جماعت کے لیے مقامی بیت المال، علاقے میں علاقائی بیت المال، ضلع میں ضلعی بیت المال، حلقے میں حلقے کا بیت المال، صوبے میں صوبائی بیت المال اور مرکز جماعت میں مرکزی بیت المال قائم کیا جائے گا۔ اِلاّ یہ کہ بالائی شوریٰ کسی نظام کے لیے الگ بیت المال کے قیام کو غیر ضروری قرار دے یا کسی جگہ الگ الگ بیت المال قائم کرنے کی بجائے ایک ہی بیت المال کافی سمجھے۔
(۲) بیت المالوں کے نظم و نسق کے متعلق جملہ اختیارات امیر جماعت کو حاصل ہوں گے۔
۲- بیت المال میں آمدنی کے ذرائع
دفعہ ۹۵: جماعت کے بیت المالوں کی آمدنی حسب ذیل ذرائع سے حاصل کی جائے گی:
(۱) جماعت کے ارکان اور اس کے کام سے دلچسپی رکھنے والے دوسرے حضرات سے بمد:
(ا) اعانت
(ب) عشر و زکوٰۃ
(ج) عام صدقات
(۲) ماتحت بیت المالوں سے
(۳) جماعت کی مطبوعات سے منافع
(۴) جماعت کے مکتبوں سے منافع
(۵) لُقطہ (جو جماعت کے دفاتر اور مقامات اجتماع میں ملے اور جو شرعی قواعد کی رُو سے داخل بیت المال ہوسکتا ہو)
(۶) جماعتی املاک کی آمدنی
(۷) ایسی جائیدادوں کی آمدنی جو جماعت کے لیے وقف کی گئی ہوں۔
تشریح: ارکان جماعت اپنی زکوٰۃ، عشر اور صدقات واجبہ لازماً جماعت کے بیت المال میں داخل کریں گے۔
۳- بیت المال سے صَرف کے اختیارات
دفعہ ۹۶: (۱) ہر جماعت کا بیت المال اس کے امیر کے تحت ہوگا اور امیر کو اپنے بیت المال سے ہر جماعتی کام پر خرچ کرنے کے اختیارات ہوں گے، لیکن ہر امیر اپنی مجلس شوریٰ اور امرائے بالا کے سامنے جواب دہ ہو گا۔
(۲) امیر جماعت بیت المال کی آمد و صرف کے معاملے میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے سامنے جواب دہ ہو گا۔
(۳) مرکزی بیت المال کے حساب کی پڑتال ہر سال کسی آڈیٹر سے کرائی جائے گی جس کا تقرر مجلسِ شوریٰ کرے گی اور آڈیٹر کی رپورٹ مجلسِ شوریٰ کے سامنے پیش کی جائے گی۔
٭…٭…٭
حصہ یازدہم
متفرقات
تنقید و محاسبہ، قواعد سازی،
ترمیم دستور، توضیح اصطلاحات
۱۔ تنقید و محاسبہ کی آزادی
دفعہ ۹۷: (۱) ہر رکن جماعت کو ارکان کے اجتماع عام میں مرکزی نظام پر، صوبے کے اجتماع میں صوبائی نظام پر‘ حلقے کے اجتماع میں حلقے کے نظام پر‘ ضلع کے اجتماع میں ضلعی اور مقامی اجتماع میں مقامی نظام پر تنقید اور محاسبے کا حق ہوگا‘ بشرطیکہ وہ حدودِ شرعیہ اور حدودِ اخلاق سے تجاوز نہ کرے اور کوئی ایسا طریقہ اختیار نہ کرے جو جماعت کے لیے نقصان دہ ہو۔
(۲) ہر رکن جماعت کو حق حاصل ہوگا کہ اگر اسے امیر جماعت یا مجلس ِ شوریٰ کے فیصلوں پر کوئی اعتراض ہو یا وہ ا ن کے بارے میں کوئی سوال کرنا چاہے تو:
(ا) اسے مجلسِ شوریٰ کے کسی رکن کے ذریعے سے مرکزی مجلسِ شوریٰ میں پیش کرائے۔ یا
(ب) ارکان کے اجتماع عام میں خود اسے پیش کرے بشرطیکہ اجتماع ارکان کا اعلان ہونے کے بعد دس دن کے اندر وہ اپنا سوال یا اعتراض قیّم جماعت کے پاس بھیج دے۔
(۳) ارکان کے اجتماعات عام میں تنقید و محاسبہ کرنے اور اعتراضات اور سوالات پیش کرنے کے لیے ضابطہ کارروائی مرتب کرنے کا اختیار مرکزی مجلس ِ شوریٰ کو ہوگا۔
۲۔ قواعد سازی کے اختیارات
دفعہ ۹۸: اس دستور کے منشا کو پورا کرنے کے لیے جن قواعد کی ضرورت پیش آئے وہ امیر جماعت مجلس عاملہ کے مشورے سے مرتب کرسکے گا
۳۔ دستور میں ترمیم کا طریقہ
دفعہ۹۹: (۱) ترمیمِ دستور کے لیے صرف وہی تجویز مجلسِ شوریٰ کے اجلاس میں زیر غور آسکے گی جو مرکزی مجلسِ شوریٰ کے ایجنڈے میں شامل ہوگی اور اس کے لیے پندرہ دن کا نوٹس ضروری ہوگا۔ ترمیم دستور کے لیے ایجنڈے کی شق پر مرکزی مجلسِ شوریٰ اتفاق رائے سے فیصلہ کرنے کی کوشش کرے گی لیکن اختلاف کی صورت میں مجلسِ شوریٰ کے کل ارکان کی دو تہائی اکثریت کا فیصلہ مجلسِ شوریٰ کا فیصلہ تصّور ہو گا۔
(۲) اگر کوئی رکنِ جماعت دستور میں ترمیم کرنے کی تجویز پیش کرنا چاہے تو اسے متعین اور واضح صورت میں قلمبند کرکے اجلاس شروع ہونے سے کم از کم بیس دن پہلے قیّمِ جماعت کے پاس بھیج دے گا۔ امیر جماعت خود یا مجلس عاملہ یا اس کی مقررکردہ کمیٹی اگر اسے منظور کرے تو اسے ایجنڈے میں شامل کر لیا جائے گا۔ البتہ مجلسِ شوریٰ کے ارکان کی بھیجی ہوئی ترمیم دستور کی واضح اور متعین تجاویز لازماً ایجنڈے میں شامل کی جائیں گی بشرطیکہ اجلاس شروع ہونے سے کم از کم تیس دن پہلے قیّم جماعت کے پاس پہنچ جائیں۔
۴۔ توضیح اصطلاحات
دفعہ ۱۰۰: اس دستور میں جو اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں ان کا صحیح مفہوم وہ ہوگا جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے، الاّ یہ کہ کسی سیاق عبارت میں کوئی اصطلاح صراحتہً دوسرے مفہوم پر دلالت کرے۔
(۱) ’’جماعت‘‘ اور ’’جماعت اسلامی‘‘ کے معنی ’’جماعت اسلامی پاکستان‘‘ کے ہوں گے۔
(۲) ’’امیر‘‘، ’’امیر جماعت‘‘ اور ’’مرکزی امیر‘‘ کے معنی ’’امیرجماعت اسلامی پاکستان‘‘ کے ہوں گے۔
(۳) ’’مستقل امیر‘‘ سے مراد دفعہ ۱۷ کے مطابق ارکان جماعت کا منتخب کردہ امیر ہو گا۔
(۴) ’’عارضی امیر‘‘ سے مراد دفعہ ۱۷(۶) کے تحت مرکزی مجلسِ شوریٰ کے ارکان کا منتخب کردہ امیر ہوگا۔
(۵) ’’قائم مقام امیر‘‘ سے مراد دفعہ ۱۷(۷) کے تحت امیر جماعت کا مقرر کردہ امیر ہو گا۔
(۶) ’’شوریٰ‘‘، ’’مجلسِ شوریٰ‘‘ اور ’’مرکزی مجلسِ شوریٰ‘‘ سے مراد جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلسِ شوریٰ ہو گی۔
(۷) ’’مجلس عاملہ‘‘ اور ’’مرکزی مجلس عاملہ‘‘ سے مراد جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس عاملہ ہوگی۔
(۸) ’’ماتحت امراء‘‘ سے مراد جماعت اسلامی پاکستان کے تنظیمی صوبوں، حلقوں، ضلعوں، علاقوں اور مقامی جماعتوں کے امراء ہوں گے۔
(۹) ’’ارکان جماعت‘‘ سے مراد اگر معاملہ مرکزی نظام جماعت سے متعلق ہو، تو کل پاکستان کے ارکان اور کسی علاقے یا مقام کے نظام سے متعلق ہو تو اسی علاقے یا مقام کے ارکان ہوں گے۔
(۱۰ ا) ’’تنظیمی صوبہ‘‘ اور ’’صوبہ‘‘ ہم معنی متصّور ہوں گے اور ان سے مراد وہ علاقہ ہوگا جسے امیر جماعت، جماعت کا تنظیمی صوبہ قرار دے دے۔
(ب) ’’تنظیمی حلقہ‘‘ اور ’’حلقہ‘‘ ہم معنی متصّور ہوں گے اور ان سے مراد وہ علاقہ ہو گا جسے امیر جماعت، جماعت کا تنظیمی حلقہ قرار دے دے۔
(۱۱) ’’ضلع‘‘، ’’جماعتی ضلع‘‘ اور ’’تنظیمی ضلع‘‘ ہم معنی متصّور ہوں گے اور ان سے مراد وہ علاقہ ہوگا جسے امیر جماعت، جماعت کا تنظیمی ضلع قرار دے دے۔
(۱۲) ’’مقامی جماعت‘‘ سے مراد وہ جماعت ہوگی جو ایک مقام پر مقیم ارکان جماعت پر مشتمل اور ایک مقامی امیر کے ماتحت ہو۔
(۱۳) ’’مرکزی شعبہ تنظیم‘‘ سے مراد وہ مرکزی شعبہ ہوگا جو مرکز جماعت اسلامی میں کل پاکستان نظام جماعت کے تنظیمی امور کو چلانے کے لیے کام کر رہا ہو۔
(۱۴) ’’مرکزی شعبہ‘‘سے مراد وہ شعبہ ہوگا جسے امیرجماعت، مجلس عاملہ یا مرکزی مجلسِ شوریٰ مرکزی شعبہ قرار دے۔ (دفعہ ۳۷)
(۱۵) صوبوں، حلقوں اور اضلاع کے شعبہ ہائے تنظیم سے مراد علی الترتیب صوبوں، حلقوں اور اضلاع کے قیّموں کے دفاتر ہوں گے۔
(۱۶) ’’ارکان کے اجتماع عام‘‘ سے ارکان جماعت کا وہ اجتماع مراد ہو گا جس میں جماعت کے تمام ارکان کو یا ان کے منتخب کردہ مندوبین کو شرکت کی دعوت دی گئی ہو۔