سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ میں کوئی سقم نہیں، نفاذ کے لیے حکومت آرڈر جاری کرے،سراج الحق
1سال پہلے
لاہور30 نومبر2022ء
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ میں کوئی سقم نہیں، نفاذ کے لیے حکومت آرڈر جاری کرے، سپریم کورٹ نے فیصلہ پر عمل درآمد سے کسی کو روکا نہ ہی کوئی سٹے آرڈر جاری کیا ہے، اپیلیں چلتی بھی رہیں تو اسلامی معاشی نظام کے نفاذ میں کوئی امر مانع نہیں، حکومت بہانوں اور ٹال مٹول کی بجائے سودی نظام کے خاتمے کا روڈمیپ دے، ربا ایمنسٹی سکیم متعارف کرائی جائے،قومی و نجی اداروں کو اسلامی بنکوں میں لین دین کا پابند کیا جائے، حکومت انفرادی، صنعتی اور زرعی قرضوں پر سود ساقط کرے۔ 75برسوں سے ملک میں سودی نظام نافذ ہے جس کے ذمہ دار حکمران ہیں، ابھی تک 1839ء کا ربا ایکٹ چل رہا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کی روشنی میں حکومت عالمی مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرضوں اور آئندہ کے لین دین پر شرائط طے کرے۔ وہ کراچی میں ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمانی اور سینئر وائس پریذیڈنٹ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری سلیمان چاولہ کی میزبانی میں اسلامی معیشت پر کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ تقریب سے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور جے یو آئی (ایف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی خطاب کیا۔
امیر جماعت نے کہا کہ ملک میں مالیاتی نظام کا بنیادی ریگولیٹر وفاقی وزارت خزانہ ہے جب کہ دیگر تمام بنکوں کو سٹیٹ بنک ریگولیٹ کرتا ہے۔ ایک جامع نظام معیشت کے لیے وفاقی وزارت خزانہ میں تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام اور ماہرین اسلامی معیشت پر مشتمل شریعہ سپروائزری بورڈ تشکیل دیا جائے اور اس بورڈ کی رہنمائی میں اسلامی نظام معیشت کی تشکیل و ترقی کے لیے قانون سازی ہو۔ سٹیٹ بنک تمام قومی و نجی بنکوں کو اسلامی بنکاری اختیار کرنے پر آمادہ کرے۔ بنکوں کے ذاتی شریعہ بورڈ کے فتوؤں پر انحصار پر شریعہ سپروائزری بورڈ سے استفادہ کیا جائے۔ سکوک یا اسلامی بانڈز کے علاوہ تمام بانڈز پر پابندی عائد کی جائے۔ سٹیٹ بنک تمام نجی بنکوں کو حکم دے کہ وہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے اپنی اپیلیں واپس لیں، اگر اپیلیں واپس نہیں لی جاتیں تو سٹیٹ بنک ان تمام بنکوں کے لائسنس منسوخ کرے۔
سراج الحق نے کہا کہ آئین پاکستان کی دفعات، اسلامی نظریاتی کونسل اور علما کی سفارشات اور وفاقی شرعی عدالت کے واضح فیصلہ کے باوجود ملک میں سودی نظام رائج ہے، قوم اس نظام سے نجات چاہتی ہے، ترقی و خوشحالی کا واحد راستہ اسلامی نظام معیشت کو اپنانے میں ہے۔ انھوں نے تقریب میں موجود وفاقی وزیر خزانہ اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکومت میں ہوتے ہوئے فیصلہ سازی کا مکمل اختیاررکھتے ہیں، وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کی موجودگی میں حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معیشت کوسود فری بنانے کے لیے واضح روڈ میپ دے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک ہماری قومی معیشت کو کنٹرول کر رہے ہیں، قرضوں پر انحصار کی بجائے خودانحصاری کی منزل حاصل کرناہو گی جس کے لیے پہلی اور آخری شرط سودی سرمایہ دارانہ نظام سے نجات ہے۔ معیشت کو زکوٰۃ اور عُشر پر استوار کیا جائے، وسائل کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی بنیادی وجہ بھی سودی نظام ہے جس سے معاشرے کے دوفیصد سے کم جاگیردار، سرمایہ دار، وڈیرے اور مافیاز فائدہ ہو رہے ہیں جب کہ کروڑوں افراد گھٹن، ڈپریشن کا شکار غربت اور محرومی کی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں وسائل کی کمی نہیں بلکہ ان کی منصفانہ تقسیم کا مسئلہ ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے اور ہم ہر فورم پر عوام کے حقوق اور فرسودہ نظام کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں گے۔