امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا گورنر اسٹیٹ بینک کے استعفیٰ کا مطالبہ
2سال پہلے
لاہوریکم جنوری2022ء
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ آج ہمارا اسٹیٹ بینک اب ہمارا نہیں، گورنر اسٹیٹ بنک آئی ایم ایف کو جوابد ہے، اس سے استعفیٰ لیا جائے، اگر گورنر سٹیٹ بنک کو نہ ہٹایا گیا تو ہم سٹیٹ بنک کا گھیراؤ کر سکتے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کرپٹ حکمرانوں اور سودی نظام کی وجہ سے ہے۔آج ملک میں مہنگائی اور سودی نظام کے خلاف اعلان بغاوت کرتے ہیں۔ سودی نظام یہودی نظام معیشت ہے،اس کو مسترد کرتے ہیں۔ پاکستان کو سودی اور کرپٹ نظام کے لیے نہیں بنایا گیا تھا۔ قائداعظمؒ نے خود سود کے خلاف اسلامی نظام معیشت کی بات کی تھی۔ آئین پاکستان بھی سودی نظام کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ آئین پاکستان کا تقاضا ہے ملک میں سودی نظام نہ ہو۔ سودی نظام کے علمبردار سود خور حکمران ہیں۔ سودی نظام کا وجود آج امریکہ و برطانیہ میں ختم ہو رہا اور جاپان نے شرح سود کو صفر کر دیا لیکن ہمارے ملک کے معاشی نظام کو ایک سازش کے تحت سود کی زنجیروں میں چکڑا گیا۔سودی نظام معیشت کی وجہ سے پاکستان کا ہر بچہ مقروض ہے۔ ملکی آمدنی کا 35 سے 40 فیصد سودی قرضوں کی واپسی میں چلا جاتا ہے، لیکن حکومت مدینہ کی اسلامی ریاست کے جھوٹے دعوے کرتی ہے۔ 75 سالوں کا تجربہ کہتا ہے ملک سودی نظام کی وجہ سے ترقی نہیں کر سکا۔ سینیٹ سے بغیر سود اوپن تجارت کا بل پیش ہو کرمشترکہ طور پر منظور بھی ہوا، لیکن حکومت قومی اسمبلی میں اس کو پیش نہیں کرنا چاہتی۔ حکومتی ناکامی کے ساتھ اپوزیشن کی ناکامی اور ملی بھگت پہلے دن سے واضح ہے۔ ایکسٹینشن، ایف اے ٹی ایف سے منی بجٹ تک اپوزیشن نے ہر موقع پر سہولت کاری کا کام کیا۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان میچ پہلے دن سے فکس ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گاکہ اپوزیشن عوام کے مسائل پر بات کرنے کی بجائے حکومت کی سہولت کار بنی ہوئی ہے۔ ڈیل اور ڈھیل کے چکر میں قوم کا جینا حرام کر دیا گیا۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے اسلام آباد میں سود کے خلاف جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جلسہ عام سے نائب امراء جماعت اسلامی پروفیسر محمد ابراہیم، میاں محمد اسلم، فرید احمد پراچہ، پنجاب شمالی کے امیر ڈاکٹر طارق سلیم اور اسلام آباد کے امیر نصراللہ رندھاوا نے بھی خطاب کیا۔ جلسہ میں ہزاروں افراد سمیت خواتین بچے اور تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگ شریک ہوئے۔
سراج الحق نے کہا کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے میرے ساتھ مدینہ منورہ میں بیٹھ کر سودی نظام کے خاتمے کا وعدہ کیا۔ مسجد نبوی میں سود کے خاتمے کا وعدہ کر کے مکر گئے، جو مسجد نبوی میں بیٹھ کر وعدہ پورا نہیں کر سکا، قوم ان کے وعدوں پر کیوں اعتبار کرتی ہے؟ انھوں نے کہا کہ ملک کے 90 فیصد عوام سودی نظام کی وجہ سے بھوکے اور ننگے ہیں۔ 22 کروڑ کی آبادی میں صرف 30 لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ لوگ اس لیے ٹیکس نہیں دیتے کہ ملک پر کرپٹ حکمران مسلط ہیں۔ سود کے خاتمے کے لیے ماؤں اور بہنوں نے اپنے زیورات قربان کیے۔ قوم اب کرپٹ حکمرانوں پر اعتبار نہیں کرتی۔ مہنگائی کے طوفان میں لوگ ٹیکس کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ شرم کی بات ہے 18 فیصد مزید ٹیکس لگا کر کہتے ہیں اس سے کون سی مہنگائی آئے گی۔ شرم سے عاری حکومت نے مساجد کے بجلی کے بلوں میں ٹی وی کا بل شامل کر دیا۔ یہ خود کہتے تھے پٹرول، چینی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وزیراعظم چور ہے۔ اب تو وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید بھی کہتے ہیں دوائی خریدی تو معلوم ہوا مہنگائی ہے۔ مہنگائی کا ادراک ہونے کے لیے کیا سب وفاقی وزراء کا بیمار ضروری ہے؟ تاکہ ان بہرے لوگوں کو معلوم ہو ملک میں کتنی ہوشربا مہنگائی ہے۔ آج پورے پنجاب میں کھاد ناپید، کسان سراپا احتجاج ہیں، ان کی صدائیں سننے والا کوئی نہیں۔ فصلوں کی کم پیداوار سے غذائی قلت جیسی صورتحال سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔ اس حکومت نے کشمیر کو بیچ کر انڈیا کے حوالے کیا اور ملکی تاریخ کو ناقابل برداشت نقصان پہنچایا۔
امیر جماعت نے کہا کہ وزیراعظم کہتے ہیں گھبرانا نہیں، سکون قبر میں ملے گا۔ حکومت نے سٹیٹ بنک آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا ہے جوکہ ملکی معیشت کو تباہ کرنے کے مترادف ہی نہیں غیروں کے حوالے کرنا ہے۔ ملکی معیشت کو گروی رکھنا سنگین غداری ہے، آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا۔ ملکی معیشت کو گروی رکھنے پر سٹیٹ بنک کے گورنر کو برطرف کیا جائے اور اگر نہ کیا تو اسلام آباد کا گھیراؤ کریں گے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ دو کروڑ سات لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں کوئی پرسان حال نہیں۔ ریٹائرڈ ججوں اور جرنیلوں کو دوبارہ سرکاری ملازمتوں سے نوازا گیا ہے۔
انھوں نے سوال اٹھایا کہ وزیراعظم قوم کو بتائیں کہ ایک کروڑ نوکریوں میں کتنے لوگوں کو روزگار دیااور پجاس لاکھ گھروں میں سے کتنے گھر بنائے۔ وزیراعظم نے روزگار دینے کی بجائے لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کیا اور لاکھوں لوگوں سے ان کے گھر کی چھت چھین لی۔ خان صاحب آج لنگر خانوں میں لوگوں کا رش دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ سود خور حکومت نے سرکاری ملازمین کو سود پر گاڑیاں دیں۔ جتنے سرکاری ملازمین کو سود پر گاڑیاں اور گھر ملے ہیں کہتا ہوں ایک روپیہ سود ادا نہ کریں۔ حکومت نے ہیلتھ کارڈ اور راشن کارڈ کو بھی اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا۔ یہی کام پیپلزپارٹی، مسلم لیگ اور جرنیلوں نے کیا ہے۔ ڈرامہ بازی کرنے والی پیپلزپارٹی خود این آراو کر کے اقتدار میں آئی اور نواز شریف نے خود فوجی گملوں میں پرورش پائی۔ اب یہ لوگ کس منہ سے اسٹیبلشمنٹ کو مائنس کرنے کی بات کرتے ہیں۔ لوگوں سے کہتا ہوں جماعت اسلامی کا ساتھ دو۔ 2022ء کا پہلا دن ہے آج سے مہنگائی، بے روزگاری اور سودی نظام کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہیں۔ وزیراعظم کو کہتا ہوں اب بس کر دو، حکومت چھوڑ دو، تم نے یہ ملک کرپٹ مافیاز کے حوالے کیا۔ ہمارے دفتروں، بنکوں اور ایوانوں سمیت وزیراعظم ہاؤس میں سب جگہ مافیاز بیٹھے ہیں۔ ان مافیاز نے پی آئی اے، سٹیٹ بنک، سٹیل مل اور معیشت کو کھا لیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ 2022 حکومت کا آخری سال ہے۔ جماعت اسلامی کراچی سے چترال، گوادر سے اسلام آباد تک حکومت کے مخالف تحریک کا اعلان کرتی ہے اور یہ تحریک اب فیصلہ کن ہوگی۔