News Detail Banner

افغان حکومت کو تسلیم نہ کرنا ممبرز ممالک کی امریکہ کے زیرِ اثر غلامانہ خارجہ پالیسی کی عکاس ہے،سراج الحق

2سال پہلے

لاہور21 دسمبر2021ء

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ افغانستان میں بحران کا باعث بیرونی طاقتیں، بحران پر قابو پانے کے لیے عملی تعاون کریں۔ او آئی سی کا اجلاس خوش آئند لیکن کشمیر پر بات نہ کرنا لمحہئ فکریہ ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ او آئی سی کے اجلاس میں اس پر خاموشی اختیار کرنا باعث شرم ہے۔ 41سال بعد ہونے والے اجلاس میں حکومت کی مسئلہ کشمیر پر خاموشی، کشمیری عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔مدعی اگر سست ہو تو بیرونی دنیا کسی بھی مسئلے پر تعاون نہیں کر سکتی۔ حکومت نے کشمیر کوایجنڈے میں شامل نہ کر کے کس کو راضی کرنے کی کوشش کی ہے؟ کشمیر میں لاکھوں شہدا کی قربانیوں کا تقاضا تھا کہ اس اہم اجلاس میں ان کو درپیش مشکلات پر بات کی جاتی اور عملی اقدامات کے حوالے سے مشاورت کی جاتی۔ ایک اچھا موقع تھا کہ افغانستان کی حکومت کو تسلیم کر کے پوری دنیا میں اخلاقی طور پر پریشر ڈالا جاتا، لیکن بدقسمتی سے اس پر کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا۔ افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے مسلم ممالک کا امریکا کی طرف دیکھنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شائد مسلم ممالک کی خارجہ پالیسی بھی آزاد نہیں ہے۔ افغانستان میں امریکا کی شکست کے بعد وہ دن دور نہیں جب فلسطین اور کشمیر کے عوام آزادی کا سورج طلوع ہوتا دیکھیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے منصورہ سے جاری ایک بیان میں کیا۔

امیر جماعت نے کہا کہ حکومت کی جانب سے او آئی سی اجلاس کے ایجنڈے میں کشمیر کو شامل نہ کرنا لاکھوں شہدا کے خون کے ساتھ بے وفائی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں 5اگست 2019ء کے بعد تاریخ کا سب سے بڑا انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، جس میں نہ تو کسی کو انسانی بنیادی حقوق میسر ہیں اور نہ ہی میڈیا کی وہاں تک رسائی کی اجازت ہے۔ دنیا بھر میں بسنے والے اربوں انسان کشمیر میں ہونے والے مظالم پر دل گرفتہ اور مطالبہ کرتے ہیں کہ عالمی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیر کے حوالے سے فوری طور پر ایسا لائحہ عمل مرتب کریں جس سے یو این او کی قراردادوں کے مطابق وہاں بسنے والے مسلمانوں کو ان کا حق خودارادیت مل سکے۔او آئی سی اجلاس سے کشمیریوں کی بہت ساری توقعات وابستہ تھیں، لیکن اجلاس کے علامیہ میں کشمیر کا ذکر تک نہ ہونے سے کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہوا۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کے لیے ”انسانی ٹرسٹ فنڈ“ بنانا خوش آئند ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر عملی اقدامات کرتے ہوئے افغانستان کو کسی بھی پیدا ہونے والے انسانی المیہ سے بچایا جائے۔ افغانستان کی 70فیصد سے زائد آبادی بھوک اور فلاس کا شکار ہے۔ پہلی ترجیح میں خوراک اور تعلیم کے لیے فوری طور پر اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ افغانستان میں معاشی بدحالی، انفراسٹرکچر اور اداروں کی تعمیرنو کا کام موثر انداز میں کیا جاسکے۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کے وزیرخارجہ مولوی امیر خان متقی سے تفصیلی دوطرفہ امور اور باہمی تعاون پر تبادلہ خیال ہوا۔ افغان وزیر خارجہ نے بھی جماعت اسلامی کے مثبت کردار کو سراہا اور امید ظاہر کی کہ مستقبل قریب میں بھی باہمی رابطے اور مشاورت کا سلسلہ جاری رہے گا۔