News Detail Banner

جماعت اسلامی آف شور کمپنیوں کے مالکان کی شفاف تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ جائے گی،سراج الحق

3سال پہلے

لاہور05 اکتوبر2021ء 

منصورہ میں سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی امیرالعظیم اور سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق  نے وزیراعظم کی طرف سے اعلان کی گئی تحقیقاتی کمیٹی کو مستردکرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی تعجب کی بات ہے کہ وزیراعظم  پانامہ لیکس کے موقع پر عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کررہے تھے اور اب انہوں نے اپنے دوستوں کو بچانے کے لیے اپنے ہی دفتر میں چھوٹا سا سیل قائم کردیا ہے۔ انھوں نے سوال کیا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ سرمایہ دار، سرمایہ دار کی اور دوست، دوست کی تفتیش کر سکے۔ جماعت اسلامی وزیراعظم کے دوہرے معیار کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے اور چیف جسٹس سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ازخود نوٹس لیتے ہوئے پنڈورا پیپرز میں شامل سات سو پاکستانیوں کی تحقیقات کے لیے تحقیقاتی کمیشن قائم کریں اور ان چار سو چھتیس افراد کو بھی بلایا جائے جن کے نام پانامہ لیکس میں آئے تھے۔ یہ انتہائی شرم کا مقام ہے کہ حکمران طبقہ اوورسیز پاکستانیوں کو جو کہ زیادہ تر محنت کش کلاس ہے، دن رات پاکستان رقم بھیجنے کی تبلیغ کرتا ہے، مگر خود اپنی ٹیکس چوری اور غبن سے بنائی گئی دولت کو آف شور کمپنیوں کے ذریعے بیرونی ممالک میں رکھتا ہے۔ انھوں نے اس امر پر دکھ کا اظہار کیا کہ قوم کی توجہ بانٹنے کے لیے اب حکمران اشرافیہ نے آف شور کمپنیوں کے قانونی یا غیرقانونی ہونے کی بحث شروع کردی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس بحث کی کوئی حیثیت نہیں اور آف شور کمپنیاں چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہوں غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہیں۔ بنیادی طور ظالمانہ اور کرپٹ سرمایہ دارانہ نظام نے انسانیت کو تباہ کردیا ہے اور ہمارے حکمران اس نظام سے فائدہ بھی اٹھارہے ہیں اور اس کے محافظ بھی ہیں۔ تہتر برسوں سے ملک کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا جا رہا ہے۔ ایک طبقہ اپنی جیبیں بھر رہا ہے جب کہ دوسرا نان و نفقہ کا بھی محتاج ہے۔ پی ٹی آئی کے دور میں جتنے بھی سکینڈلز بنے ان پر کبھی شفاف تحقیقات نہ ہو سکیں اور قوم کو محض جھوٹے وعدوں اور دعوؤں کے ذریعے بہلایا جا رہا ہے۔ سراج الحق نے مغربی ممالک کے دوہرے معیار کوبھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ غریب ممالک کاپیسہ لوٹ کر لے جانے والوں کو مغربی ممالک مکمل تحفظ فراہم کرتے ہیں، مگر دن رات جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون و انصاف کے بالاتر ہونے کا پرچار کیا جاتا ہے۔ 

سراج الحق نے اعلان کیا کہ جماعت اسلامی نے لیگل ٹیم سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ہم پانامہ لیکس کے کیس کی طرح پنڈورا پیپرز کا ایشو بھی سپریم کورٹ لے کر جائیں گے۔ انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ اب کی بار اعلیٰ عدلیہ قوم کو مایوس نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہاکہ جن سرکاری افسران یا ان کے اہل خانہ کے نام پنڈورا پیپرز میں آئے ہیں وہ بھی استعفیٰ دیں۔ جن اداروں سے وابستہ ریٹائرڈ یا حاضر سروسز افراد کے نام آئے ہیں، ان اداروں کے سربراہان بھی اپنے تئیں تحقیقات کا آغاز کریں تاکہ اداروں کی ساکھ اور عوام کا اعتماد بحال ہو۔ امیر جماعت کا کہنا تھا کہ اگر آف شور اکاؤنٹ ہولڈرز وزراء خود استعفے نہیں دیتے تو ان سے استعفے لیے جائیں تاکہ تحقیقات کی شفافیت پر انگلی نہ اٹھے۔ انہوں نے کہا اگر پانامہ لیکس میں ملوث تمام افراد کے خلاف تحقیقات ہوجاتیں تو شاید ملک و قوم کو اس حد تک ہزیمت اور شرمندگی نہ اٹھانا پڑتی۔حد تو یہ ہے کہ بھارت کے چار سو افراد جبکہ پاکستان جو بھارت سے کہیں چھوٹا ملک ہے کے سات سو افراد نے ملکی سرمایہ لوٹ کر آف شور کمپنیاں بنا رکھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی یہ سمجھتی ہے کہ پنڈورا پیپرز کے معاملہ میں حکومت اور دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک ہی پیج پر ہیں اور بنیادی طور پر انہی جماعتوں سے وابستہ سیاستدانوں کے نام بھی پیپرز میں آئے ہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری اور ریٹائرڈ افسران ہیں۔ 

ایک سوال کے جواب میں امیر جماعت نے کہا کہ قوم نیب کی کارکردگی سے قطعی طور پر مطمئن نہیں۔ انہوں نے کہا نیب چیئرمین کی تعیناتی کے لیے آئین و قانون کی تشریح کو مقدم رکھا جائے۔ 

مہنگائی اور بے روزگاری سے متعلق ایک سوال کے جواب میں سراج الحق کا کہناتھا کہ پی ٹی آئی حکومت سوا تین سالوں میں عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف دینے میں مکمل ناکام ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس معیشت کی بحالی کا کوئی ایجنڈا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ملک بھر سے بے روزگار افراد کو 31اکتوبر کو اسلام آباد لے کر جائے گی اور حکمرانوں کے خلاف بھرپور مظاہرہ کیا جائے گا۔