عالمی امن و سلامتی کی خاطر فلسطین اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی ضرورت ہے، بین الاقوامی گول میز کانفرنس ،
20گھنٹے پہلے
عالمی امن و سلامتی کی خاطر فلسطین اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی ضرورت ہے، بین الاقوامی گول میز کانفرنس ،
اوآئی سی سوڈان میں جاری المناک صورتحال میں مداخلت کر کے تنازعہ کا پرامن حل تلاش کرے،
عالمی سطح پر رسائی اور فالو اپ اقدامات کو مربوط کرنے کی خاطر لاہور پاکستان میں جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر میں ایک مستقل سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا ،
جماعت اسلامی کے زیر اہتمام کانفرنس کا لاہور اعلامیہ جاری
جماعت اسلامی کے زیر اہتمام بین الاقوامی گول میز کانفرنس نے کہا ہے کہ فلسطین اور مسئلہ کشمیرکے باعت مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا ممکنہ ایٹمی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں، عالمی امن و سلامتی کی خاطر دونوں تنازعات کو حل کرنے کی ضرورت ہے،کانفرنس کے بعد جاری ہونے والے لاہور اعلامیہ میںاو آئی سی پر زورد یا گیا ہے کہ وہ سوڈان میں جاری المناک صورتحال میں مداخلت کر کے تنازعہ کا پرامن حل تلاش کرے، مسلم امہ کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے عالمی سطح پر رسائی اور فالو اپ اقدامات کو مربوط کرنے کی خاطر پاکستان میں جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر میں ایک مستقل سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا یہ اقدام ایک سالانہ یا دو سالہ فورم کی شکل اختیار کرے گا، جس میں ملائیشیا کو اگلے میزبان ملک کے طور پر تجویز کیا گیا ہے، جماعت اسلامی کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں '' صرف ایک عالمی آرڈر کی تلاش ''کے عنوان سے ایک بین الاقوامی گول میز کانفرنس ہوئی ، کانفرنس سے امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان ، سابق وفاقی وزیر و عالمی امور کے ماہر مشاہد حسین سید ، ریورینڈ فرینک چیکین، یورپی پارلیمان کے رکن مسٹر برہان کیاترک ،فلسطین سے مسٹر سمیع الآرائیں ،یوکے سے ڈاکٹر انس التکریتی ،امریکہ سے معروف کشمیری راہنما ڈاکٹر غلام نبی فائی ، ڈاکٹر شائون کنگ ،چیئرمین نیو ویلفیئر پارٹی ترکیہ مسٹر فاتح اربکان،برازیل سے مسٹر تھیگو اویلا،،ملائیشین پارلیمان کے رکن دیتو حجاح ممتاز،یوکے سے مسٹرلیوران بوتھ سمیت معروف عالمی رہنمائوں نے خطاب کیا ۔ عالمی گول میز کانفرنس میں 40سے زائد ممالک کے مندوبین شریک ہوئے۔کانفرنس میں ورلڈ کشمیر فریڈم موومنٹ کے نذیر قریشی ، مزمل ایوب ٹھاکر، سابق امیر کشمیر جماعت عبدالرشید ترابی، نائب قیمہ ثمینہ سعید اور دیگر راہنما بھی شریک ہوئے۔کانفرنس کے بعد نونکاتی لاہور اعلامیہ جاری کیا گیا جس میںاس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ موجودہ بین الاقوامی نظام، جو نوآبادیاتی پس منظر اور دوسری جنگ عظیم کے بعد کی طاقتوں کے توازن پر مبنی ہے، انصاف، مساوات یا پائیدارامن فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ عالمی ادارے اب بھی تاریخی طاقتوں کی عدم توازن کی عکاسی کرتے ہیں، جس سے بین الاقوامی قوانین کا مخصوص استعمال، اقتصادی تفاوت میں اضافہ، اور اخلاقی، سماجی، اور ماحولیاتی عدم توازن گہرا ہوا ہے۔ انسانیت اب ایک تہذیبی موڑ پر کھڑی ہے جس کے لیے عالمی حکمرانی کی اخلاقی اور ساختی تنظیم نو کی ضرورت ہے۔اسلام نسل، زبان یا رنگ سے قطع نظر انسانیت کی نجات کا وژن پیش کرتا ہے۔ یہ ایک جامع نظام ہے جو انصاف، ہمدردی، مساوات اور ذمہ داری پر بنایا گیا ہے۔
کانفرنس نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ فلسطین ایک مقبوضہ سرزمین ہے اور فلسطینی عوام کو اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کے تحت مزاحمت کا حق حاصل ہے،اعلامیہ میں کہا گیاہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 16 ٹھوس قراردادوں کے تحت بین الاقوامی قانون کی حیثیت حاصل ہے جو کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیتا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ حق خودارادیت جو فلسطینیوں اور کشمیریوں کو سات دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ قبل دیا گیا تھا اس پر عمل درآمد نہیں ہوا اور اس حق سے انکار نے مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا کا خطہ دونوں کو ممکنہ ایٹمی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ بین الاقوامی امن اور سلامتی کی خاطر دونوں تنازعات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ او آئی سی کو چاہیے کہ وہ سوڈان میں جاری المناک صورتحال میں مداخلت کرے جس میں 150,000 سے زائد معصوم جانوں کی ہلاکت اور تباہی ہو چکی ہے اور تنازعہ کا قبل از وقت اور پرامن حل تلاش کرنا چاہیے جو ریاست کے اداروں کو محفوظ رکھے اور سوڈانی عوام کی خودمختاری کا احترام کرے
اعلامیہ میں انصاف (عدل)، مشترکہ انسانی وقار، اخلاقی جوابدہی، اور پرامن بقائے باہمی پر قائم عالمی نظام کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ قوموں کی ایک برادری کا تصور کرتا ہے جو تسلط یا مادی مسابقت سے نہیں بلکہ اخلاقی ذمہ داری، ہمدردی، اور مساوات، پائیداری، اور انسانی یکجہتی کے لیے ایک عالمگیر وابستگی سے منسلک ہے۔
اعلامیہ میں اصلاح کیلئے پانچ اہم تجاویر پیش کی گئیں ہیں جن میں ?۔ بین الاقوامی اداروں کی تنظیم نو: اقوام متحدہ اور مالیاتی اداروں کو جمہوری بنانا، ویٹو کو ختم کرنا، اور مساوی نمائندگی کو یقینی بنانا۔
۔ قدرتی وسائل پر خودمختاری: وسائل کے کنٹرول، منصفانہ تجارت، اور پائیدار انتظام کے قومی حقوق کی تصدیق۔
۔ وسائل اور ٹیکنالوجی کی مساوی منتقلی: قرض سے نجات، ٹیکنالوجی کی منتقلی، اور منصفانہ فنانسنگ کے ذریعے عالمی سطح پر دوبارہ تقسیم کا آغاز۔
۔ انحصار اور نو سامراج کا خاتمہ: کثیر القومی کارپوریشنز کو منظم کرنا، علاقائی خود انحصاری کو فروغ دینا، اور مقامی صلاحیتوں کو مضبوط کرنا اور
۔ اخلاقی اور روحانی بنیادیں: عالمی نظاموں میں اخلاقی حکمرانی، احتساب، بین المذاہب تعاون، اور روحانی تجدید کو سرایت کرنا۔
اعلامیہ کے آخر میں آگے کے لائحہ عمل کا اعلان کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ لاہور، پاکستان میں جماعت اسلامی کے صدر دفتر میں ایک مستقل سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا تاکہ عالمی سطح پر رسائی اور فالو اپ اقدامات کو مربوط کیا جا سکے۔ یہ اقدام ایک سالانہ یا دو سالہ فورم کی شکل اختیار کرے گا، جس میں ملائیشیا کو اگلے میزبان ملک کے طور پر تجویز کیا گیا ہے۔
اعلامیہ میں تمام اقوام سے مشترکہ اخلاقی اقدار، عالمی اداروں کی اصلاح اور ایک منصفانہ اور انسانی عالمی نظام کے لیے اجتماعی طور پر کام کرنے پر زور دیاکیا گیا ہے۔
ٹائم لائنز کے ساتھ عملی لائحہ عمل جلد ہی تمام شراکت داروں کے ساتھ شیئر کیا جائے گا



