پروفیسر خورشید احمدؒ کی سیاسی، اقتصادی، تعلیمی بصیرت اور میراث کو مشعل راہ بنایا جائے، حافظ نعیم الرحمن
4دن پہلے

پروفیسر خورشید احمدؒ کی سیاسی، اقتصادی، تعلیمی بصیرت اور میراث کو مشعل راہ بنایا جائے، حافظ نعیم الرحمن
مرحوم نے اپنی زندگی اسلام اور پاکستان کے لیے وقف کررکھی تھی،ان کا کام ان کی زندگی سے زیادہ ہے
امیر جماعت اسلامی اور دیگر کا منصورہ میں پروفیسر خورشید احمد مرحوم کے تعزیتی ریفرنس سے خطاب۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پروفیسر خورشید احمد نے اپنی زندگی اسلام اور پاکستان کے لیے وقف کررکھی تھی۔ اُن کی سیاسی، اقتصادی اور تعلیمی بصیرت اور میراث کو مشعل راہ بنایا جائے۔ پاکستان کو دنیا کے ممالک میں ممتاز اور سر فہرست دیکھنا اُن کا خواب ہی نہیں زندگی کا مشن تھا۔ پاکستان ایک جغرافیہ کا نہیں نظریے اور عقیدے کا نام ہے۔پاکستان نہ صرف امت مسلمہ بلکہ پوری انسانیت کے لیے امن و سلامتی کا پیغام ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے ”بیاد پروفیسر خورشید احمد“سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
تعزیتی ریفرنس سے معروف سکالر، وائس چانسلر رفاہ یونیورسٹی ڈاکٹر انیس احمد، سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی امیر العظیم،انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے چیئرمین خالد رحمن، پلڈاٹ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبرجاوید نواز، مدیر ترجمان القران پروفیسر سلیم منصور خالد،،سیکریٹری جنرل الخدمت فاؤنڈیشن سید وقاص انجم جعفری اور لاہور جماعت کے امیر ضیاء الدین انصاری نے بھی خطاب کیا۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا پروفیسر خورشید احمدنے طویل عمر پائی مگران کا کام ان کی عمر سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان اور عالم اسلام کے لیے معیشت اور تعلیم کے میدان میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ وہ سید مودودیؒ کے فکری وارث تھے۔ شعوری پختگی،یکسوئی اور مسلسل تحرک ان کا طرہئ امتیاز تھا۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ پروفیسر خورشید احمد مرحوم اپنی آخری سانس تک پاکستان کو ایک اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے لیے کوشاں رہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کے حوالے سے ان کی بصیرت قابل رشک تھی اور وہ تعلیم کے میدان میں پاکستان کو صف اوّل میں دیکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے حکومت کو تجاویز دینے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے مگر حکمرانوں نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی، تعلیم عوام کا حق ہے خیرات نہیں، پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان اگر تعلیم کو تجارت نہ بنائیں تو یہ قوم کی بڑی خدمت ہے۔انہوں نے کہا کہ پروفیسر خورشید احمد سیاسی اعتبار سے اپنی رائے دینے میں بخل سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ ہمیشہ مشترکات پر آگے بڑھنے کو ترجیح دیتے۔ پروفیسر خورشید احمد کی فکر بہت وسیع تھی ان کی گفتگو و علم میں کہیں بھی ذات کی اسیری نظر نہیں آئی۔ پاکستان کا قیام ایک معجزہ اور انقلاب تھا مگرحکمرانوں کے ستائے عوام ملک کے خلاف بولنا شروع کردیتے ہیں۔ہندو کلچرکو اپنا کلچر اور تہذیب کہنے والوں کا اقتدار پر مسلط ہوناشرمناک اور ملک و قوم کی بدقسمتی ہے۔
امیر العظیم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر خورشید احمد نے اداروں کی رہنمائی کی، تعلیمی ومعاشی میدان میں بہترین کردار ادا کیا۔ ملائیشیا سے لے کرانڈونیشیا اور پاکستان تک اسلامی بینکنگ اور جامعات کی بنیاد رکھی۔ ترکی میں اربکان سے اردگان تک سب ان کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ پروفیسراحمد خورشید نے بطور سینیٹر کوئی تنخواہ اور مراعات نہیں لیں اور اپنی تنخواہ چھوٹے ملازمین میں تقسیم کردیتے تھے۔
ڈاکٹر انیس احمد نے کہا کہ پروفیسر خورشید احمد نے اسلام اور پاکستان کی خدمت کا عزم کررکھا تھا۔انہوں نے مولانا مودودیؒ کی فکر کو آگے بڑھایا اور سرمایہ داری،اشتراکیت اور سودی معیشت کی بیخ کنی کی۔تحریک کے ساتھ وابستگی، اطاعت نظم اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی ان کی زندگی کے تین بڑے مقاصد تھے۔
جاوید نواز نے کہا کہ پروفیسر مرحوم نے اقتصادیات و معاشیات کے علم کو ترتیب دیا جو تاریخی کام ہے۔ ان کی تعلیمات کوجن لوگوں نے سمجھا وہ ترقی کے زینے چڑھتے گئے۔ عالمی اقتصادی بینک میں اسلامی کاؤنٹر پروفیسر خورشید احمد کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے چئیرمین خالد رحمن نے کہا کہ پروفیسر خورشید 22سال تک سینیٹ کے ممبر رہے،سینیٹ کے چیئرمین وسیم سجاد اور رضا ربانی گواہی دیتے ہیں کہ مختلف تنازعات کے موقع پر جب ایوان کو چلانا مشکل ہوجاتا تو پروفیسر خورشید احمد کے مدلل خطاب سے تلخیاں ختم ہوجاتیں اور ایوان پوری یکسوئی کے ساتھ ان کی ہدایات کے مطابق قانون سازی میں مصروف ہوجاتا۔
ممتاز عالم دین شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک کی دعا سے تقریب کا اختتام ہوا۔