ملی یکجہتی کونسل نومنتخب صدر صاحبزادہ ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر و سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کی دیگر قائدین کے ہمراہ پریس کانفرنس
1ماہ پہلے
لاہو ر23 اکتوبر 2024ء
ملی یکجہتی کونسل کی مجلس قائدین نے کونسل کے دستور کی روشنی میں اتفاق رائے سے فیصلہ کیا ہے کہ صاحبزادہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر آئندہ تین برس کے لیے کونسل کے صدر جبکہ لیاقت بلوچ سیکرٹری جنرل ہوں گے۔ منصورہ میں ہونے والے اجلاس میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے خصوصی شرکت کی اور نومنتخب قائدین کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ اجلاس میں 21جماعتوں کے قائدین اور نمائندگان نے شرکت کی اور فیصلہ کیا گیا کہ ملی یکجہتی کونسل میں دیگر جماعتوں کی شمولیت ممکن بنانے کے لیے رابطے تیز کیے جائیں گے اور اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی، اسی طرح دستور ملی یکجہتی کونسل میں تجاویز کی شمولیت اور ترامیم، ممبر جماعتوں کوفعال بنانے اور مالیاتی امور کے لیے بھی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ اجلاس میں علامہ عارف واحدی، پروفیسر محمد ابراہیم، مولانا عبدالمالک، پیر ہارون گیلانی، علامہ شبیر حسین میسمی، پیر عبدالرحیم نقشبندی، قاری یعقوب شیخ، مولانا عبدالغفار روپڑی، مولانا نعیم بادشاہ، خرم نواز گنڈاپور، سید لطیف الرحمن شاہ، پیر غلام رسول اویسی، سید ضیا اللہ شاہ بخاری، مفتی گلزار احمد نعیمی، قاضی ظفرالحق، پیر سید صفدر شاہ گیلانی، ڈاکٹر سید علی عباس نقوی، سید اسد نقوی، مرزا ایوب بیگ، نذیر احمد جنجوعہ، چودھری فرحان شوکت ہنجرا و دیگر قائدین شریک تھے۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نومنتخب صدر ملی یکجہتی کونسل صاحبزادہ ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر نے کہا کہ مجلس قائدین نے غزہ میں جاری اسرائیلی دہشت گردی کی پرزور مذمت کی ہے اور اس امر پر افسوس اور تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اسلامی ممالک کے حکمران اور بالخصوص پاکستان کی حکومت ان مظالم پر خاموش ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ حکومت پاکستان غزہ پر اسلامی سربراہی کانفرنس یا کم از کم وزرائے خارجہ کا اجلاس بلائے جو اہل فلسطین کو صہیونی مظالم سے نجات دلانے کے لیے واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے عملی اقدامات اٹھائے۔ انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی دہشت گردی کی بھی پرزور مذمت کی اور حکومت پر زور دیا کہ کشمیر کاز کے لیے جاندار موقف اپنائے۔ انھوں نے کہا کہ ملی یکجہتی کونسل ملک میں قیام امن اور مختلف مسالک کے مابین ہم آہنگی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، تاہم دیکھنے میں آیا ہے کہ ملک میں ایک منظم سازش کے ذریعے فرقہ واریت پھیلائی جا رہی ہے، حکومت اس کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھائے۔ انھوں نے مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی تحسین کی اور حکومت پر زور دیا کہ قادیانی سازشوں کو روکنے اور انھیں آئین کا پابند بنانے کے لیے لائحہ عمل طے کرے۔ انھوں نے 26ویں آئینی ترمیم میں سود کے خاتمہ سے متعلق شق کی شمولیت کو بھی سراہا تاہم یہ وضاحت کی کہ حکومت جب تک سود کے خاتمے کا واضح روڈ میپ نہیں دیتی ان کا یہ عمل محض عوام کو مطمئن کرنے کی سیاسی چال ہی گردانا جائے گا۔ انھوں نے امیر جماعت کا ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس کی میزبانی کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
نومنتخب سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل و نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کہا کہ ملی یکجہتی کونسل کی مجلس کے قائدین نے اس امر پر زور دیا ہے کہ آئین پاکستان جو کہ ایک متفقہ دستاویز ہے کو متنازع بنانے سے گریز کیا جائے، حالیہ آئین ترمیم پر قومی اتفاق رائے نہیں ہوا جس سے آئین کی روح اور تقدس پامال ہوئے، حکومت کا اصل کا کام قرآن و سنت کی بالادستی کا قیام، آزادی عدلیہ کی تشکیل اور اسلامی معاشی نظام کو مضبوط بنانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملی یکجہتی کونسل خیبرپختونخوا پاراچنار میں فرقہ واریت کے خاتمہ کے لیے جرگہ تشکیل دے کر کردار ادا کرے گی۔ انھوں نے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے وزیراعظم کے امریکی صدر کو خط اور اپیل کو سراہا تاہم حکومت سے مطالبہ کیا کہ محض خطوط کے تبادلے سے مظلوم عافیہ کی رہائی ممکن نہیں ہو گی اس کے لیے تمام سفارتی و سیاسی کاوشیں بروئے کار لائی جائیں۔ انھوں نے لاپتا افراد کا مسئلہ حل کیا جائے، اگر کسی شخص نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے، تاہم یہ کسی صورت مناسب نہیں ہے کہ لوگوں کو غائب کر دیا جائے۔
اجلاس میں متفقہ قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ ملی یکجہتی کونسل کا یہ اجلاس مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں جاری بدترین مظالم کی پرزور مذمت کرتا ہے۔
اجلاس کے تمام شرکا کا اتفاق ہے کہ دونوں مقبوضہ خطوں میں ہندوتوا نواز بھارتی حکومت اور صہیونی ایجنڈا پر گامزن نتین یاہو حکومت مسلمانوں کی نسل کشی کررہے ہیں۔یہ اجلاس ان مظالم اور سفاکیت پر اسلامی ممالک کے اکثر حکمرانوں کی خاموشی کی بھی مذمت کرتا ہے۔ یہ اجلاس زور دیتا ہے کہ اسلامی ممالک متحد ہوکر اسرائیل اور بھارت سے دونوں خطوں کے عوام کو نجات دلانے میں عملی کردار ادا کریں۔
27 اکتوبر خطہ کشمیر کی تاریخ کا سیاہ دن ہے۔ آج سے سات دہائیاں قبل بھارتی افواج نے عوامی امنگوں اور جمہوری اقدار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر پر قبضہ جمایا۔ کشمیری عوام اس وقت سے لے کر آج تک بھارتی تسلط سے آزادی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، اس جدوجہد میں اب تک لاکھوں کشمیری شہید ہوچکے ہیں، قربانیوں کی ایک لازوال داستان ہے، یہ اجلاس اس جدوجہد کو سلام پیش کرتا ہے۔
یہ اجلاس پاکستانی عوام کی جانب سے کشمیریوں کو یقین دلاتا ہے کہ ہم سب تحریک حریت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ اجلاس پاکستان کے چند حکمران خاندانوں کی بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کی پرزور مذمت کرتا ہے اور اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ اسلام آباد میں ہونے والی حالیہ ایس سی او سربراہی کانفرنس میں پاکستان کی حکومت کی طرف کشمیراور مسئلہ فلسطین پر گفتگو نہیں کی گئی۔یہ اجلاس واضح کردینا چاہتا ہے کہ کشمیریوں کے خون پر بھارت سے کسی قسم کے تعلقات استوار نہیں ہوسکتے۔
اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ سابق آرمی جنرل ریٹائرڈ چیف قمر جاوید باجوہ کے دور میں مقبوضہ کشمیر پر مودی حکومت سے سودے بازی کی رپورٹس پر دفتر خارجہ وضاحت کرے۔ بصورت دیگر قوم میں یہ تاثر تقویت پکڑے گا کہ نئی دہلی اور اسلام آباد نے مل کر کشمیریوں کی تحریک آزادی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ یہ اجلاس اس عہد کا اعادہ کرتا ہے کہ 27اکتوبر کو ملک بھر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے یوم سیاہ منایا جائے گا۔