دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرکے پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کو ون ویلنگ کا موقع پی ٹی آئی نے فراہم کیا۔سراج الحق
1سال پہلے
لاہور27 جون 2023ئ
امیرجماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرکے پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کو ون ویلنگ کا موقع پی ٹی آئی نے فراہم کیا۔ 2023 ءمیں قومی انتخابات نہ ہوئے تو سیاست دان بلدیاتی الیکشن ہی لڑیں گے۔ سیاسی جماعتوں کے پاس اب بھی موقع ہے پائیدار جمہوریت کے قیام کے لیے مذاکرات کاراستہ اختیار کریں۔ جو فیصلے باہر ہوں وہ ملک کے مفاد میں نہیں، عوام کو اختیار دیا جائے۔ سیاست سرمایہ کی بنیاد پر نہیں خدمت اور کردار پر ہونی چاہیے، مفادات کے لیے سیاست کرنے والوں کا نام تاریخ کے کوڑے دان میں ملے گا۔ ان خیالات کا اظہارانھوں نے منصورہ میں منشور کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں نائب امیر ڈاکٹر فرید پراچہ، سیکرٹری جنرل امیر العظیم، ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد اصغر، سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف، ناظم سوشل میڈیا شمس الدین امجد و دیگر افراد نے شرکت کی۔
سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی کا منشور اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے مقصد کو مدنظررکھتے ہوئے تشکیل دیا گیا ہے جو قوم کے لیے امید کی شمع ہے، اقتدار میں آ کر منشور پر عمل درآمد کو یقینی بنائیںگے۔ جماعت اسلامی نے تمام سیاسی جماعتوں سے پہلے الیکشن منشور دیا، ہمارے یہاں سیاسی پارٹیاں پہلے بن جاتی ہیں نظریات اور منشور بعد میں آتے ہیں، ملک کے مسائل کی بڑی وجہ نظریاتی سیاست کی عدم موجودگی ہے۔
امیر جماعت نے کہا کہ 13 جماعتوں کا اتحاد وقتی مفادات کے لیے وجود میں آیا، الیکشن کا اعلان ہوتے ہی ان کا شیرازہ بکھر جائے گا، موجودہ اور سابقہ حکمران جماعتوں کی پالیسیوں میں کوئی اختلاف نہیں، قوم ان کو اچھی طرح پہچان لے۔ جمہوری حکومت کا مقصد اداروں کو مضبوط کرنا ہوتا ہے، ہمارے ہاں 75برسوں سے اداروں کو کمزور کرنے یا اپنے مقاصد کے لیے استعمال کی روش جاری رہی ہے۔ سیاست دانوں کی مالی کمزوریاں ہیں، اسٹیبلشمنٹ کی چھتری کے بغیر پی ڈی ایم، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی سیاست نہیں کرسکتیں۔
امیر جماعت نے کہا کہ حکمران جماعتیں ڈلیور نہیں کر سکیں، ان کا بیانیہ کارکردگی کا نہیں، ایک دوسرے پر الزام تراشی کا ہے۔ ملک میں تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں، عدالتی نظام 128ویں نمبر پر ہے، 80فیصد سے زائد آبادی مضرصحت پانی پینے پر مجبور ہے، عدلیہ تقسیم ہے، کمزور کو انصاف نہیں ملتا، طاقتور قانون کو موم کی ناک سمجھتا ہے۔ جمہوریت یہ ہے کہ کراچی میں سوا تین لاکھ ووٹ لینے والے نو لاکھ ووٹوں کے مقابلے میں جیت گئے۔ الیکشن کمیشن کی کارکردگی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ الیکشن کمیشن دیگر جمہوری ممالک کی طرح مالی اور انتظامی لحاظ سے مضبوط ہو اور قومی انتخابات سے قبل تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد شفاف الیکشن کے لیے ایسا نظام وضع کرے کہ جس پر کوئی اعتراض نہ کر سکے۔ ادارے سیاست سے دور ہو جائیں، حلف کی پاسداری کریں اور ان غیرجانبداری نظر بھی آئے۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں غیریقینی کی صورت حال ہے، عوام کا پیمانہ ¿ صبر لبریز ہو چکا ہے، ایک طرف مہنگائی اور بے روزگاری تو دوسری جانب بدامنی ہے، کرپشن اور سودی معیشت نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دیں اور قوم پر قرضوں کا ہمالیہ لاد دیا گیا، حکومت سودی قرضوں کی ادائیگی کے لیے عوام کا نچوڑتی ہے، اپنی مراعات، پروٹوکول کلچر اور غیرترقیاتی اخراجات کم کرنے کو تیار نہیں۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی مکمل غلامی اختیار کر لی ہے، ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلسل ہے، کرپٹ نظام اور اس کے پہرے داروں سے جان چھڑائے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ جماعت اسلامی اقتدار میں آ کر انصاف اور احتساب کا بے لاگ نظام قائم کرے گی اور قومی وسائل کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔