کبل پولیس سٹیشن سوات میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ پر حکومتی موقف کو مسترد کرتے ہوئے اسے حقائق کی بجائے عذرلنگ قرار دیا ہے اور واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔سراج الحق
1سال پہلے
لاہور25 اپریل 2023ء
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کبل پولیس سٹیشن سوات میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ پر حکومتی موقف کو مسترد کرتے ہوئے اسے حقائق کی بجائے عذرلنگ قرار دیا ہے اور واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ ثمرباغ دیرپائن سے جاری بیان میں انھوں نے شہدا کی درجات کی بلندی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا بھی کی ہے۔
امیر جماعت نے سوال کیا کہ دہشت گردوں سے چھینا ہوا آتشیں اسلحہ کثیر آبادی کے حامل پوائنٹ پر رکھنے کا رسک کیوں لیا گیا؟ قوم پوچھنا چاہتی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے ہوتے ہوئے خیبرپختونخوا میں اس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہو رہا، لوگ کب تک اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے اور ماتم کرتے رہیں گے؟ حکومت کی وضاحت سے سو سوالات پیدا ہوتے ہیں اور یہ کہ خود سرکاری لوگوں کے بیانات میں واضح تضادات ہیں، ماضی میں جتنے دھماکے ہوئے سوائے ایک کے جس کی انکوائری جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کی، حقائق منظرعام پر نہیں آئے، حتیٰ کہ آرمی پبلک سکول جیسے اندوہناک واقعہ کی انکوائری بہت لیٹ شروع کی گئی اور قوم اب تک نتائج کی منتظر ہے۔ انھوں نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے چند روز بعد سوات دہشت گردی کا واقعہ بجائے خود حکومتی کارکردگی پر ایک بہت بڑا سوال ہے اور یہ کہ کبل میں انسداد دہشت گردی کے پولیس سٹیشن میں خیبرپختونخوا میں حالیہ دہشت گردی کی لہر کا دوسرا بڑا واقعہ ہوا جس میں 17لوگ شہید اور 50 سے زائد زخمی ہیں، اس سے قبل پشاور کے وسط میں انتہائی حساس علاقہ کی مسجد میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا جس میں پولیس سمیت کئی لوگوں کی جانیں گئیں، صوبہ میں لوگوں کے چہرے بجھے ہوئے ہیں، صرف خیبرپختونخوا ہی نہیں پورے ملک میں عوام پریشان اور مایوس ہیں، حکومت کی اولین ذمہ داری شہریوں کی جان و مال کی حفاظت ہے، اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں یہ ذمہ داری انجام نہیں دے سکتیں جیسا کہ حالات سے واضح ہے تو براہ مہربانی گھر چلی جائیں۔ سوات دہشت گردی واقعہ کے بعد خیبرپختونخوا میں شدید غم و غصہ ہے اور لوگ حکمرانوں کو کوس رہے ہیں۔ ایک طرف مہنگائی اور بے روزگاری ہے اور دوسری جانب خوف،بدامنی اور حکمرانوں کی طفل تسلیاں ہیں۔ لوگ حکمرانوں کے جھوٹے نعروں سے تنگ آ چکے ہیں اور کرپٹ اشرافیہ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ نام نہاد سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات اور پارٹی جھگڑوں میں الجھی ہوئی ہیں جس سے مسائل مزید الجھ رہے ہیں اور ملک لاوارث ہے۔ حکمرانوں نے عوام سے خوشیاں چھین لی ہیں، کیا خیبرپختونخوا کے لوگوں کا کام صرف لاشیں اٹھانا رہ گیا ہے؟ حیران ہوں کہ اداروں اور حکومت کے عہدیداران تمام سہولیات انجوائے کر رہے ہیں، بکتربندگاڑیوں اورسیکیورٹی کے حصار میں گھومتے اور محلات میں رہایش پذیر ہیں، مگر عوام کی حفاظت کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ یا حکمت عملی نظر نہیں آرہی۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کی حفاظت اور بہتری حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہیں۔
مزیدبرآں ثمرباغ دیرپائن میں جے آئی یوتھ کی جانب سے عید ملن پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت نے کہا کہ نوجوان ملک و ملت کا اثاثہ ہیں اور انہی سے ہی بہتری کی امید وابستہ ہے۔ نوجوان جماعت اسلامی کا ساتھ دیں اور ملک میں پرامن اسلامی انقلاب کے لیے جمہوری جدوجہد کا حصہ بنیں۔ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا اور اسلامی نظام سے ہی یہاں بہتری آ سکتی ہے۔ جماعت اسلامی کی جدوجہد کا مقصد و محور ملک کو قرآن و سنت کا نظام دینا ہے۔ دین آئے گا تو امن اور خوشحالی آئے گی۔ قوم نے گزشتہ 75برسوں میں مارشل لا کو بھی دیکھ لیا اور نام نہاد سیاسی حکومتوں کے جمہوری ادوار کا بھی مزا چکھ لیا، یہ سب لوگ آزمائے جا چکے ہیں،اب قوم کے لیے واحد آپشن جماعت اسلامی ہے۔ اس موقع پر امیر ضلع اعزاز الملک افکاری، سابق ایم پی اے سعید گل اور صدر جے آئی یوتھ دیرپائن عتیق الرحمن بھی موجود تھے۔
ایک ٹی وی انٹرویو میں قومی انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی اپنی کوششوں کے سلسلہ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی نظر میں سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ الیکشن کے لیے کوئی درمیان راہ نکالیں اور یہ کہ اعلیٰ عدالت اس ضمن میں اپنے فیصلے پر نظرثانی کر سکتی ہے۔ امیر جماعت کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں سے ابتدائی بات چیت کے نتیجے میں بھی انھوں نے اخذ کیا کہ تمام موجودہ سیاسی بحران کا حل چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں اولین ذمہ داری وزیراعظم کی ہے کہ وہ بدھ کو ہونے والی پارٹیوں کے اجلاس میں اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی صدق دل سے موجودہ سیاسی، آئینی بحران کو ختم کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے، عوام کی طرف رجوع کرنا ہو گا اور سیاسی و آئینی بحران ختم ہوں گے تب ہی معاشی مسائل کے حل کے لیے کوئی راستہ نکلے گا۔