شاہ کلید از سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ

جاہلیت کے زمانے میں میں نے بہت کچھ پڑھا ہے۔ قدیم و جدید فلسفہ، سائنس، معاشیات، سیاسیات وغیرہ پر اچھی خاصی ایک لائبریری دماغ میں اتار چکا ہوں، مگر جب آنکھ کھول کر قرآن کو پڑھا تو بخدا یوں محسوس ہوا کہ جو کچھ پڑھا تھا سب ہیچ تھا- علم کی جڑ تو اب ہاتھ آئی ہے۔

کانٹ، ہیگل، نٹشے، مارکس اور دنیا کے تمام بڑے بڑے مفکرین اب مجھے بچے نظر آتے ہیں- بے چاروں پر ترس آتا ہے کہ ساری عمر جن گتھیوں کو سلجھاتے رہے اور جن مسائل پر بڑی بڑی کتابیں تصنیف کر ڈالیں، پھر بھی حل نہ کر سکے، ان کو اس کتاب نے ایک دو فقروں میں حل کرکے رکھ دیا- میری محسن بس یہی کتاب ہے- اس نے مجھے بدل کر رکھ دیا- حیوان سے انسان بنا دیا- تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئی- ایسا چراغ میرے ہاتھ میں دے دیا کہ زندگی کے جس معاملہ کی طرف نظر ڈالتا ہوں حقیقت اس طرح برملا دکھائی دیتی ہے کہ گویا اس پر پردہ نہیں ہے- انگریزی میں ایسی کنجی کو شاہِ کلید (Master Key) کہتے ہیں جس سے ہر قفل کھل جائے- سو میرے لیے یہ قرآن مجید شاہِ کلید ہے- مسائلِ حیات کے جس قفل پر اسے لگاتا ہوں، کھل جاتا ہے- جس خدا نے یہ کتاب بخشی ہے، اس کا شکر ادا کرنے سے میری زبان عاجز ہے