علم غیب رسل

( سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ )

سوال: ایک عالم دین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’رسول کو عالم غیب سے وہی باتیں بتائی جاتی ہیں جن کو اللہ ان کے توسط سے اپنے بندوں کے پاس بھیجنا چاہتا ہے۔‘‘ استدلال میں یہ آیت پیش کی ہے۔


عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًاO اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًاO لِّیَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ(الجن:26-27-28)


یعنی’’وہ غیب کا عالم ہے اور وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلق نہیں کرتا سوائے اس رسول کے جس کو اس نے چن لیا ہو، پھر وہ اس کے آگے اور پیچھے نگران لگا دیتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ رسولوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچادیے۔‘‘


مصنف کی اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولوں کو غیب کا صرف اتنا ہی علم دیا جاتا ہے جتنا بندوں کو پہنچانا مطلوب ہوتا تھا۔ اس سے زیادہ انہیں کوئی چیز نہیں بتائی جاتی تھی۔ کیا یہ بات درست ہے؟ اور کیا وہ آیت جس سے مصنف نے استدلال کیا ہے اس معاملہ میں فیصلہ کن ہے؟


جواب: مصنف نے دراصل عوام الناس کے اس غلط خیال کی تردیدکرنی چاہی کہ رسول تما م ماکان ومایکون کو جا نتے ہیں اور خدا نے ان کو پورا علم غیب دے دیا حتیٰ کہ جو کچھ خدا جانتا ہے وہی اس کا رسول بھی جانتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ باطل ہے اور اس کی تردید کی حد تک مصنف کی بات درست ہے۔ لیکن اس کا یہ خیال درست نہیں ہے کہ رسولوں کو بس اتنا ہی علم غیب دیا گیا تھا جتنا بندوں کو پہنچانا مطلوب تھا۔ یہ بات قرآن اور حدیث کی تصریحات کے بھی خلاف ہے اور خود اس آیت سے بھی نہیں نکلتی جس سے مصنف نے استدلال کیا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت یعقوب کے متعلق ارشاد ہوا ہے کہ آپ نے اپنے بیٹوں سے فرمایا۔


وَاَعْلَمُ مِنَ اﷲِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(یوسف:86)


’’میں خدا کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔‘‘


علاوہ بریں قرآن مجیدکے بکثرت مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ قوموں پر عذاب بھیجنے سے پہلے ان کے نبیوں کو خبر دے دی گئیں۔ مگر انہوں نے عذاب کے وقت اور اس کی تفصیلی کیفیت سے اپنی قوم کو مطلع نہ کیا۔حضرت نوح علیہ السلام کو تو اتنے پہلے عذاب کی خبر دے دی گئی تھی کہ انہوں نے طوفان آنے سے پہلے کشتی بنا لی۔لیکن انہوں نے اپنی قوم کو یہ نہیں بتایا کہ تم پر پانی کا عذاب آنے والا ہے۔ پھر حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی عربیﷺ کو غیب کے ایسے ایسے حالات بتائے گئے تھے جو آپ کی امت کو نہیں بتائے گئے۔ چنانچہ ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے حضوراکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:


یا امہ محمد واللہ لو تعلمون ما علمت لضحکتم قلیلا ولبکیتم کثیراً۔(بخاری۔ باب الصدقہ فی الکسوف)


’’اے محمدﷺ کی قوم! خدا کی قسم اگر تم کو وہ باتیں معلوم ہوتیں جو میں جانتا ہوں تو تم کم ہنستے اور بہت روتے۔‘‘


ایک اور موقع پر حضور اکرمﷺ نے فرمایا:


لاراکم من ورائی کما اراکم(بخاری باب عظتہ امام الناس)


’’میں تم کو پیچھے سے بھی ایسا ہی دیکھتا ہوں جیسا سامنے سے دیکھتا ہوں۔‘‘


غرض بکثرت آیات اور روایات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ رسولوں کو جو علم غیب دیا گیا تھا وہ اس سے بہت زیادہ تھا جو ان کے واسطے سے بندوں تک پہنچا اور عقل بھی یہی چاہتی ہے کہ ایسا ہو کیونکہ بندوں کو تو غیب کی طرف وہی باتیں معلوم ہونے کی ضرورت ہے، جن کا تعلق عقائد ایمانیہ سے ہے۔ لیکن رسولوں کو ان کے سوا اور بہت سی ایسی معلومات حاصل ہونی چاہئیں جو فرائض رسالت انجام دینے میں ان کے لیے مدد گار ہوں، جس طرح سلطنت کی پالیسی اور اس کے اسرار سے نائب السلطنت اور گورنروں کا ایک خاص حد تک واقف ہونا ضروری اور عام رعایا تک ان رازوں کو پہنچ جانا بجائے مفید ہونے کے الٹا مضر ہوتا ہے۔اسی طرح ملکوت الہٰی کے بھی بہت سے اسرار ہیں جو خدا کے خاص نمائندے اور اس کے رسول جانتے ہیں اور عام رعیت ان سے بے خبر ہے۔ یہ علم غیب رسولوں کو تو اپنے فرائض انجام دینے میں مدد دیتا ہے لیکن عام رعایا نہ اس علم کی ضرورت ہی رکھتی ہے اور نہ اس کا تحمل ہی کرسکتی ہے۔زیادہ صحت کے ساتھ جو بات کہی جا سکتی ہے وہ مجملاً بس اس قدر ہے کہ نبی کا علم خدا کے علم سے کم اور بندوں کے علم سے زیادہ ہوتا ہے باقی رہی بات کو وہ کتنا ہوتا ہے اور کتنا نہیں تو اس کو ناپنے کا کوئی پیمانہ ہمارے پاس نہیں ہے۔