خرم مرادؒ

خرم مرادؒ

خرم مراد ؒ مرحوم وسط ہند کی مشہور مسلم ریاست بھوپال کے علاقے رائے سین میں 3 نومبر 1932ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان کا تعلق سہارن پور اور مظفر نگر سے ہے۔1937ء میں والد محترم کا تبادلہ گوہر گنج (بھوپال) میں ہو گیا، تو 1941ء تک وہاں قیام پذیر رہے۔ تعلیم کا آغاز گھر پر والدہ محترمہ سے قرآن پاک اردو ترجمہ کے ساتھ پڑھنے سے ہوا۔ 1943ء میں باقاعدہ سکول داخلہ چھٹی کلاس میں لیا۔1947ء میں میٹرک کا امتحان پاس کر کے حمیدیہ کالج بھوپال، انٹر سائنس سال اول میں داخلہ لیا اور سالانہ امتحان میں اول آئے۔

جماعت سے تعارف

اسی سال نومبر دسمبر میں کالج کے ایک دوست حسن الزماں اختر کی دعوت پر، جماعت اسلامی بھوپال کے اجتماع عام میں شرکت کی۔ بھوپال میں امیر جماعت سید ظہیر الحسن تھے۔ یہی اجتماع تحریک سے پہلا باقاعدہ تعارف تھا۔ اکتوبر 1948ء میں اہل خانہ کے ساتھ بھوپال سے نقل مکانی کر کے دہلی اور لاہور سے ہوتے ہوئے کراچی آ گئے۔

اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی

کراچی آمد کے بعد از خود جماعت اسلامی کراچی کے دفتر پہنچے تاکہ مقامی نظم سے باقاعدہ ربط و تعلق قائم ہو۔ چودھری غلام محمد  نے اگلے روز آنے کا کہا، اور ظفر اسحاق انصاری کے ذریعے اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق جوڑنے کا راستہ سجھایا۔ چند ہفتوں بعد اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے رکن بن گئے۔ انٹر پاس کرنے کے بعد این ای ڈی انجنیئرنگ کالج کراچی کے شعبہ سول انجینئرنگ میں داخلہ لیا۔ سال کے آخر میں کراچی جمعیت کے ناظم منتخب ہوئے۔

سید مودودی سے پہلی ملاقات

جولائی1950ء میں مولانا مودودیؒ رہائی کے بعد پہلی مرتبہ کراچی تشریف لائے۔ یہیں پر مولانا محترم سے پہلی مرتبہ آپ کی ملاقات ہوئی، اور جمعیت کی طرف سے استقبالیہ دیا۔ اسی سال نومبر میں لاہور میں ہونے والے جمعیت کے تیسرے سالانہ اجتماع میں شرکت کی اور دسمبر میں کراچی جمعیت کی نظامت سے سبک دوش ہوگئے۔

ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان

4 نومبر1951ء کو جمعیت کے چوتھے سالانہ اجتماع (لاہور) میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے تیسرے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ 1952ء میں آپ کو اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کی "دستور ساز کمیٹی" کا سربراہ مقرر کیا گیا جس نے آپ کی سربراہی میں جمعیت کا دستور مدون کیا۔ آپ کی ایک خاصیت یہ ہے کہ دسمبر 1953ء میں جس روز جمعیت کی رکنیت سے فارغ ہوئے اسی روز جماعت اسلامی کی رکنیت کے لیے درخواست دے دی۔

ملازمت اور شادی

خرم مراد مرحوم نے1953ء این ای ڈی انجنیئرنگ کالج سے بڑے اعزاز کے ساتھ اول پوزیشن میں سول انجینئرنگ کا امتحان پاس کیا اور جنوری 1954ء میں گیمن نامی انجینئرنگ کمپنی میں بطور انجینئر ملازمت اختیار کی۔ اسی سال ستمبر میں گیمن کمپنی کی ملازمت چھوڑ کر "کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن" میں ملازم ہوگئے۔ 8 جون 1958ء کو آپ کی شادی ہوئی، تقریب نکاح بھوپال میں منعقد ہوئی۔ آپ کی اہلیہ پاک و ہند کی مشہور دینی شخصیت نواب صدیق حسن کی اولاد میں سے ہیں۔

امریکہ کا سفر

ستمبر1957ء میں یونیورسٹی آف مینی سوٹا، مینا پولس سٹی(ریاست مینی سوٹا، امریکہ) میں میرٹ پر وظیفہ ملا۔ اسی بنیاد پر انجنیئرنگ میں اعلیٰ تعلیم(MS) کے حصول کے لیے امریکہ گئے۔ مینی سوٹا یونیورسٹی میں قیام کے دوران وہاں عیسائی مشنریوں سے اسلام اور عیسائیت پر مکالمات کیے۔ وہاں کے گرجا گھروں اور سماجی تقاریب میں شرکت کی اور اسلام اور پاکستان کے بارے میں تقاریر کیں۔ یہیں پر پہلی مرتبہ انگریزی میں تقریر کی مشق ہوئی۔ آپ نے ایم ایس، سول انجینئرنگ A+ گریڈ کے ساتھ اول پوزیشن میں پاس کیا۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ امتحان نوماہ کی کم از کم مدت میں پاس کیا۔ پھر آٹھ نو ماہ کے لیے یونیورسٹی ہی میں ایک عارضی تدریسی ملازمت اختیار کی تاکہ وطن واپسی کا کرایہ ہوسکے۔

امریکہ سے واپس آنے کے چند ہفتوں بعد خواجہ عظیم الدین کی پانی، بجلی اور تعمیرات کے بڑے منصوبوں کے لیے قائم کردہ ایک مشاورتی کمپنی "ایسوسی ایٹڈ کنسلٹنٹ انجنیئرز"(ACE) میں ملازمت اختیار کی۔ اسی دوران زیلن کافی ہاوس صدر کراچی میں علمی مکالمات و مباحث کی ہفت روزہ نشستوں میں شرکت کی، اور ان محفلوں میں تحریک کے زندہ مسائل پر بحث کو آگے بڑھایا۔ 1959ء میں پیر الہٰی بخش کالونی کی بلدیاتی کونسل کے الیکشن میں بطور ممبر منتخب ہوئے اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کی حتی المقدور کوشش کی۔

مشرقی پاکستان میں

1959ء آپ کی زندگی کا اہم سال ہے، جب آپ کی کمپنی نے دریائے برہما پتر پر بند بنانے کے لیے آپ کی جامع رپورٹ دیکھ کر آپ کو مشرقی پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ جنوری 1960ء میں آپ اہل خانہ سمیت ڈھاکہ پہنچے۔ مارشل لاء کے تحت جماعت اسلامی پر پابندی تھی، اس لیے مقامی قیادت سے سماجی سطح پر تعلق قائم کیا۔ دریائے برہما پتر پر آپ کی کمپنی ایک امریکی انجینئرنگ کمپنی کے اشتراک سے کام کررہی تھی۔ دونوں کمپنیوں نے انجینئرنگ رپورٹ کی تیاری کے لیے بطور پراجیکٹ انجینئر آپ کو امریکہ کے شہر ڈینور(Denver) میں جانے کی ہدایت کی۔ ڈینور سے واپسی پر آپ نے پہلی دفعہ عمرہ کی سعادت حاصل کی۔ جون 1962ء میں مارشل لاء کے خاتمے کے بعد ڈھاکہ میں جماعت کی سرگرمیوں میں فعال حصہ لینا شروع کیا۔ اسی سال آپ کی رکنیت منظور ہوئی۔

امیر جماعت اسلامی ڈھاکہ

مغربی پاکستان سے ہونے کے باوجود آپ فروری 1963ء میں جماعت اسلامی ڈھاکہ کے امیر منتخب ہوئے۔ اس سے جہاں جماعت اسلامی کی یہ انفرادی خصوصیت واضح ہوتی ہے کہ اس میں ذات، برادری اور وطن کے بجائے للہٰیت و تقویٰ معیار وہیں اس سے خرم مراد مرحوم کی اجنبی ماحول میں ہردلعزیزی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ڈھاکہ جماعت کی امارت کے دوران آپ نے بنگلہ دیش میں قائم جمعیت طلبہ عربیہ کی تنظیم اور نظم کو تحریک اسلامی کے زیر اثر لانے کا کامیاب تجربہ کیا۔ یہ تنظیم بنگلہ دیش میں تحریک کے لیے بڑا قیمتی سر چشمہ ثابت ہوئی۔ بعد ازاں پاکستان میں بھی اس کا تجربہ کامیاب رہا۔ آپ مشرقی پاکستان میں ایک عرصے تک جماعت اسلامی "شعبہ پارلیمانی امور" کے سربراہ رہے، اور جماعت کے منتخب ارکان اسمبلی کی پارلیمانی تربیت و رہنمائی کا کام خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ 1963ء میں پہلی مرتبہ آپ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔

جمہوریت کے لیے جدوجہد

جنوری 1964ء میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر کے حکومت نے 6 جنوری کو فجر کے وقت آپ کو گھر سے گرفتار کر لیا۔ تین ماہ بعد 5 اپریل کی شام رہا ہوئے۔ اسی سال صدر ایوب خان کی آمریت کے خلاف "متحدہ حزب اختلاف"(COP) کے اجلاسوں میں (کالعدم) جماعت اسلامی کی نمائندگی کی، اور شیخ مجیب الرحمن کی تجویز پر COPکے مرکزی خزانچی منتخب ہوئے، لیکن یہ ذمہ داری ادا کرنے سے معذرت پیش کر دی۔ بعد ازاں صدر ایوب کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی مہم چلانے کے لیے "متحدہ حزب اختلاف" کی "مشرقی پاکستان انتخابی کمیٹی" کے چیئرمین منتخب ہوئے اور محترمہ کے حق میں بھرپور مہم چلائی۔ اسی دوران آپ نے مزدوروں میں کام کا آغاز کیا اور مزدور طبقے تک جماعت اسلامی کی دعوت پہنچائی۔ خرم مراد مرحوم نے جماعتی امور اور سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ کمپنی کے کام پر بھی بھرپور توجہ دی چنانچہ اگست 1966ء میں آپ کو کمپنی کی مشرقی پاکستان شاخ کا چیف انجینئر اور جنرل مینیجر مقرر کیا گیا۔

1967ء میں "پاکستان تحریک جمہوریت"(PDM) کے نام سے حزب اختلاف کی جماعتیں متحد ہوئیں، اس میں جماعت کی مستقل نمائندگی کے لیے چار نمائندوں میں آپ شامل تھے۔ جنوری 1969ء میں متحدہ حزب اختلاف کی "جمہوری مجلس عمل" میں جماعت کی نمائندگی کی۔ 1970ء کے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں خرم مراد مرحوم نے انتخابی مہم کی تنظیم، حکمت عملی اور مالیات کو جمع اور تقسیم کرنے کا کام پوری تندہی سے انجام دیا۔ انتخابی مہم کے دوران بنگلہ زبان میں تقریریں کیں۔

تعلیم و تحقیق کے میدان میں

ڈھاکہ جماعت کی امارت کے دوران علمی و تحقیقی منصوبوں کی طرف آپ کی خاص توجہ رہی۔ انگریزی اور بنگالی میں بلیٹن جاری کیا جس کانام Search Light تھا۔ اس بلیٹن کے متعدد شمارے خود ہی مرتب کیے۔ اسلامک ریسرچ اکیڈمی ڈھاکہ شاخ کے پہلے سیکرٹری جنرل منتخب ہونے کے بعد آپ نے "تفہیم القرآن" اور مولانا مودودی کی دیگر تمام کتب کے بنگلہ ترجمے کا منصوبہ بنایا، اور پھر اس منصوبے کے لیے مردان کار کا انتخاب اور وسائل فراہم کیے۔ ڈھاکہ سے بنگلہ ماہنامہ "پرتھوی" جاری کیا، یہ رسالہ "ترجمان القرآن کی طرح دینی اور علمی مضامین پر مشتمل تھا۔ سقوط مشرقی پاکستان کے اس کی اشاعت 5 ہزار تھی۔ بنگلہ زبان میں روزنامہ جاری کرنے کے لیے 1968ء میں جملہ انتظامات کے لیے آپ کو پروجیکٹ انچارج مقرر کیا گیا، 17 جنوری 1970ء کو روزنامہ "سنگرام" کے نام سے اس کی اشاعت شروع ہوئی، اس وقت یہ بنگلہ صحافت میں ایک باوقار اور مؤقر روزنامہ ہے۔ ڈھاکہ جماعت کی امارت کے دوران آپ نے عریبک اسلامک یونیورسٹی ڈھاکہ کا منصوبہ پیش کیا اور انگریزی میں اس کے خدوخال پر ایک مبسوط مقالہ لکھا۔

سفر حج

1968ء میں پہلی مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ سفر حج کے اخراجات کی کفایت کے لیے 1959ء ہی سے اپنے اخراجات میں سے ماہانہ تھوڑے تھوڑے روپے اکٹھے کرتے رہے۔

جنگی قیدی

مشرقی پاکستان میں بڑھتی ہوئی شورش کے پیش نظر آپ نے اکتوبر 1971ء میں کراچی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ 26 نومبر کو اہل خانہ کو کراچی بھیج دیا، اور اپنی نشست 5 دسمبر کے لیے محفوظ کرائی مگر 3 دسمبر کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان کھلی جنگ چھڑ گئی جس کی وجہ سے یہ روانگی منسوخ ہوگئی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد دسمبرکی آخری تاریخوں میں آپ جنگی قیدی بنا لیے گئے۔ اور 20 جنوری تک ڈھاکہ کیمپ گارڈ نمبر 3 میں قید رہے۔ بعد ازاں جنگی قیدی کے طور پر انڈیا منتقل کردیا گیا جہاں آپ بطور جنگی قیدی "نمبر 365 سویلین" محبوس ہوئے۔ قید کے دوران قیدی ساتھیوں کو ناظرہ اور ترجمہ قرآن پڑھانے کی کلاس کا آغاز کیا، یہ سلسلہ رہائی تک جاری رہا۔ 17 دسمبر 1973ء کو بھارت کی قید سے رہائی پا کر واہگہ کے راستے لاہور پاکستان آئے۔ مولانا مودودیؒ سے ملاقات کے بعد 18 دسمبر کو کراچی پہنچے۔

خادم مسجد الحرام

1974ء میں کمپنی نے کالاباغ ڈیم پر کام کی پیش کش کی لیکن آپ نے کمپنی کے غیرملکی منصوبوں پر کام کو ترجیح دی۔ پہلے تہران(ایران) جبکہ بعد ازاں سعودی عرب میں تقرر ہوا۔ ریاض میں کمپنی کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے مسجد الحرام کی توسیع کے منصوبے کی تکمیل کی، اور مطاف میں سنگ مرمر کا فرش بنانے اور چاہ زمزم کے علاقے میں ترمیم و تبدیلی کے منصوبے شروع کیے۔

برطانیہ میں

1977ء میں کمپنی سے طویل رخصت لے کر برطانیہ میں "دی اسلامک فاونڈیشن" لیسٹر جیسے بلند پایہ دینی، علمی اور اشاعتی ادارے سے بطور ڈپٹی ڈائریکٹر وابستگی اختیار کی۔ 1978ء میں "اسلامک فاونڈیشن" کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے، اس دوران فاؤنڈیشن کے کام کو وسعت دی۔ سمعی و بصری منصوبے، نوجوانوں میں کام کے منصوبے اور بین المذاہب شعبے کا آغاز کیا۔ آپ نے کتب کے ترجمہ، تالیف اور اشاعت کے کام میں وسعت پیدا کی۔ 1979ء میں اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ (ISNA) کی دعوت پر امریکہ کا طویل دورہ کیا، اس دوران مغرب میں اسلام کو آگے بڑھانے کے لیے لائحہ عمل پیش کیا۔

1980ء میں اسلام اور اسلامی دنیا سے متعلق یورپ شائع ہونے والی کتب کے جائزہ و تنقیح پر مبنی تبصروں کے لیے فاونڈیشن سے سہ ماہی مجلہ:Muslim World Book Review کا اجراء کیا، جس کے آپ مدیر تھے۔ اسی سال جماعت اسلامی نے یورپ میں دیگر اسلامی تحریکوں اور تنظیموں سے رابطے کے لیے نگران مقرر کیا۔

پاکستان واپسی

1986ء میں آپ پاکستان واپس آگئے۔ اکتوبر 1987ء میں جماعت اسلامی لاہور کے امیر منتخب ہوئے جب کہ دسمبر میں آپ کو جماعت اسلامی پاکستان کا نائب امیر مقرر کیا گیا۔ امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کے غیر ملکی دوروں کے درمیان آپ نے متعدد مرتبہ قائم مقام امیر کے فرائض انجام دیے۔

مدیر ترجمان القرآن

جولائی1991ء آپ ترجمان القرآن کے مدیر مقرر ہوئے، گویا سید مودودی کی علمی و فکری وراثت کے امین مقرر ہوئے۔ آپ نے اس کا حق ادا کیا اور ترجمان القرآن کے علمی و فکری معیار میں بہتری اور سرکولیشن میں اضافے کے لیے ان تھک محنت کی۔

آپ معیاری اور ارزاں تحریکی لٹریچر کی اشاعت و ترسیل کے لیے کوشاں رہے۔ اس سلسلے میں مہران اکیڈمی، سکھر اور ادارہ منشورات، لاہور کا قیام آپ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ ادارہ سمع و بصر کی بہتری اور اس کے کام میں وسعت کے لیے بھی کوشاں رہے۔

وفات

جنوری 1996ء میں ڈاکٹروں کے مشورے پر لیسٹر برطانیہ چلے آئے، تا کہ علاج کروا کے واپس پاکستان جائیں، مگر نومبر کے وسط میں طبیعت بگڑ گئی تو ہسپتال داخل ہوگئے۔ ڈاکٹروں نے دل کے تیسرے آپریشن کے لیے 18 دسمبر تاریخ مقرر کی۔18 دسمبر کو گرین فیلڈ ہسپتال داخل ہوئے مگر 19 دسمبر 1996ء بروز جمعرات آپریشن کے چند گھنٹوں بعد خالق حقیقی سے جا ملے۔ انّا للّہ و اِنّا الیہ راجعون