خاندانی پس منظر
ایک کامیاب وکیل، ایک متحرک فلاحی شخصیت اور ایک بے مثال ناظم کی پہچان رکھنے والے نعمت اللہ خانؒ ہمہ پہلو شخصیت کے مالک تھے، اور ضلعی نظامت کے دوران لازوال خدمت کی بدولت "بابائے کراچی" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ آپ یکم اکتوبر 1930ء کو مشہور مسلم بزرگ خواجہ معین الدین اجمیری کی نگری اجمیر شریف کے علاقے شاہجہاں پور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے خاندان نے 1948ء میں شاہجہاں پور، انڈیا سے پاکستان کی طرف ہجرت کی اور کراچی میں آ بسا۔ کراچی آمد کے بعد ابتدائی دنوں میں آپ کے اہل خانہ کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے کئی سال تک ایک کمرے کے مکان میں زندگی گزارنا پڑی۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول اور خاندان کی بقا کے لیے آپ نے سخت جدوجہد کی اور پارٹ ٹائم جاب کے علاوہ ٹیوشن کے ذریعے زندگی کی گاڑی چلائی۔
زمانہ طالب علمی
ابتدائی تعلیم شاہجہاں پور اور اجمیر سے حاصل کی۔ پاکستان ہجرت کے بعد آپ نے پنجاب یونی ورسٹی سے گریجویشن کیا، فارسی لٹریچر میں ماسٹر ڈگری حاصل کی اور کراچی یونی ورسٹی سے ہی آپ نے صحافت میں ڈپلومے کے علاوہ ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں انکم ٹیکس وکیل کے طور پر وکالت کا آغاز کیا، اور ایک کامیاب وکیل اور انکم ٹیکس معاملات کے ماہر کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔
زمانہ طالب علمی میں آپ نے تحریک پاکستان میں ایک فعال کارکن کے طور پر کام کیا، اس وقت آپ کی عمر صرف 15 برس تھی۔ اسی زمانے میں آپ نے شاہجہاں پور کے مسلم رکن قانون ساز اسمبلی کے ہمراہ قائد اعظم کی سربراہی میں ہونے والی "آل انڈیا مسلم لیجسلیٹرز کانفرنس" میں شرکت کی۔ 1946ء سے قیام پاکستان تک آپ مسلم لیگ نیشنل گارڈ ضلع اجمیر کے منتخب صدر رہے۔ قیام پاکستان کے لیے عہد طفولیت کی اسی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ نعمت اللہ خان پاکستان کا نام سن کر جذباتی ہو جاتے رہے اور اس سے اپنی محبت کا اظہار کیے بنا نہیں رہتے تھے۔
جماعت اسلامی میں شمولیت
تحریک پاکستان کے دوران اسلامیان برصغیر پاک وہند سے کیے جانے والے وعدوں کو عملی شکل دینے اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست بنانے کے لیے آپ نے1957ء میں جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی، اور پیرانہ سالی کے باوجود اس خواب کی تعبیر پانے کے کے لیے مصروف عمل رہے۔ آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے جماعت کی رکنیت کا حلف خانہ کعبہ میں اٹھایا۔ حلف لینے والے پروفیسر غفور احمد تھے۔ شاید اسی کا اثر ہے کہ آپ کی جماعت سے اٹوٹ وابستگی میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا۔ اس کے بعد آپ کراچی جماعت کے نائب امیر اور ایک عرصہ تک امیر رہے، بعدازاں نائب امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ کے طور پر فرائض انجام دئیے۔
سیاسی سفر
1985ء کے غیر جماعتی الیکشن میں آپ سندھ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے، اپوزیشن ارکان نے اسمبلی میں "اپوزیشن لیڈر" کے لیے آپ پر اعتماد کا اظہار کیا۔1988ء میں اسمبلی کی تحلیل تک تقریباً ساڑھے تین سال اپوزیشن لیڈر کے منصب پر فائز رہے۔ اس دوران آپ نے کراچی اور سندھ کے عوام کی ترجمانی حق ادا کیا اور بھرپور انداز میں عوامی مسائل اسمبلی میں اٹھائے۔
2001 ء میں متعارف کرائے جانے والے ضلعی حکومتوں کے نظام کے بعد نعمت اللہ خان کراچی کے پہلے ناظم منتخب ہوئے۔ ایک نئے نظام میں منی پاکستان کہلانے والے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی نظامت ایک بہت بڑا چیلنج تھی لیکن آپ نے عزم و ہمت، انتھک محنت اور امانت و دیانت کے ذریعے شہر کراچی اور اس کے باسیوں کی بے مثال خدمت کرکے اپنے آپ کو اس منصب کا اہل ثابت کیا اور 4 سال کے مختصر عرصے میں کراچی کی شکل یکسر بدل کے رکھ دی۔ باوجود اس کے کہ آپ کو ایم کیو ایم جیسی فاشسٹ لسانی تنظیم کے گورنراور صوبائی وزرا کے معاندانہ رویے کی وجہ سے شدید مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا تھا لیکن آپ نے جواں مردی اور استقامت سے ان کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا اور کراچی کی خدمت اور اس کے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کسی مداہنت سے ہمیشہ انکار کیا۔
بطور ناظم(مئیر) کراچی کارہائے نمایاں
نعمت اللہ خان کے دور نظامت کو کراچی کا سنہرا ترین دور قرار دیاجاتا ہے، جو ان کی امانت، دیانت اور صلاحیتوں کا بین ثبوت ہے۔ نظامت کے 4 سالہ دور کی مختصر مدت میں کراچی کا بجٹ معجزانہ طور پر 6 ارب سے بڑھ کر ریکارڈ 42 ارب تک پہنچ گیا۔ سڑکوں پر پہلی بار 300 کے قریب بڑی گرین بسیں رواں دواں ہوئیں۔ 18 ماڈل پارکس سمیت، 300 پارکس اور 300 پلے گراؤنڈز کی از سر نو تعمیر کی گئی۔ طلبہ کے لیے 32 نئے کالجز بنائے گئے، کارپوریشن کے سکولوں کا معیار اس قدر بلند ہوا کہ 4 سال کے عرصے میں اے ون اور اے گریڈز کے طلبہ کی تعداد 200 سے بڑھ کر 2000 تک پہنچ گئی، 6 کالجز میں بی سی ایس پروگرام شروع ہوا تو طلباء نہایت معمولی فیس کی ادائیگی کے بعد آئی ٹی گریجویشن کرنے لگے۔
نعمت اللہ خان اہل کراچی کو جدید سہولیات سے آراستہ امراض قلب کے ہسپتال کراچی انسٹیٹوٹ آف ہارٹ کا تحفہ دیا۔ کے-ایم-ڈی-سی فیز ٹو تکمیل کو پہنچا، ایف-ٹی-سی فلائی اوور مکمل ہوا، شاہراہ قائدین اور شاہراہ فیصل فلائی اوور کا افتتاح ہوا، لیاری ایکسپریس وے اور ناردن بائی پاس جیسے میگا پراجیکٹس پر تیزی سے کام شروع ہوا۔ سہراب گوٹھ فلائی اوور، قائدآباد فلائی اوور اور سب سے بڑھ کر کورنگی تا شاہ فیصل، ملیر ریور برج پر تعمیرِ کراچی پروگرام کے تحت کام کا آغاز ہوا۔ حسن سکوائر فلائی اوور، کارساز فلائی اوور اور غریب آباد انڈر پاس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور کلفٹن انڈر پاس پر کام کا آغاز کیا گیا۔ راشد منہاس روڈ، جہانگیر روڈ، ماڑی پور، ڈالمیا روڈ، مہران ہائی وے، ابن سینا روڈ، مائی کلاچی روڈ اور شاہراہ اورنگی سے درجنوں بڑی سڑکوں کی تعمیر کی گئی۔
اسی عرصے میں کراچی کو پانی کی فراہمی کے عظیم منصوبے کے-تھری کے تحت شہریوں کو کروڑوں گیلن پانی میسر آیا، جو بلاشبہ ان کے دور نظامت کا سب سے اہم پراجیکٹ کہا جا سکتا ہے۔ سفاری پارک کا سفاری ایریا 34 سال میں پہلی بار کھلا اور چئیر لفٹ کی تنصیب کا کام مکمل کیا گیا نعمت اللہ خان نے شہر کے لیے 29 ارب روپے کا تعمیر کراچی پروگرام منظور کرایا۔ نعمت اللہ خان کی کاوشوں اور متوجہ کروانے سے کے-پی-جی، پاکستان سٹیل اور سول ایوی ایشن اتھارٹی جیسے ادارے کراچی کی ترقی کے عمل میں شریک کروائے گئے، بے شمار قلیل مدتی، درمیانی مدت اور طویل المدتی منصوبے تھے جو متعلقہ اداروں کو سونپ دیے گئے۔
کراچی شہرمیں ترقیاتی کاموں کا سیلاب آیا تو جنرل پرویز مشرف نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ تعمیر کراچی پروگرام نعمت اللہ خان کا آئیڈیا ہے، اصل ہیرو وہی ہیں اور کراچی کے حیرت انگیز ترقیاتی کاموں کا کریڈٹ انہی کو جاتا ہے۔ کراچی
میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں تو نعمت اللہ خان کا چرچا دنیا بھر میں ہونے لگا۔ حتیٰ کہ جماعت اسلامی کے مخالفین بھی ان کے اخلاص اور امانت داری کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ نعمت اللہ خان کی بہترین شہری خدمات کے نتیجے میں 2005ء میں دنیا کے بہترین مئیرز کی فہرست میں شارٹ لسٹ ہوئے، مگر حتمی نتیجہ آنے سے قبل ہی آپ کی مدت نظامت ختم ہو گئی۔ آپ کی لازوال خدمات کے نتیجے میں بلا مبالغہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اگر آپ کی نظامت کا عرصہ باقی ہوتا تو آپ کا نام "ٹاپ مئیرز آف دی ورلڈ" کی لسٹ میں آ جاتا۔
خدمت خلق کے دیگر کام
1997ء میں تھرپارکر میں آنے والے قحط کے دوران اور اس کے بعد نعمت اللہ خان نے تھرپارکر کے وسیع و عریض صحرا کے چپے چپے پر عوامی خدمت کا جو کام محدود وسائل سے کیا، وہ کروڑوں ڈالر کی بیرونی امداد پانے والی این جی اوز کے کام سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ نے تھرپارکر میں میٹھے پانی کی فراہمی کے لیے "زمزم پراجیکٹ" کے نام سے 363 کنویں کھدوائے جن سے ہزاروں بے وسیلہ صحرا نشینوں کو پانی فراہم ہو رہا ہے۔ اسی طرح 1000 سے زائد دور افتادہ دیہات میں "العلم پراجیکٹ" کے نام سے اسکول قائم کیے گئے۔ آج بھی تھر میں نعمت اللہ خان کا شروع کردہ خدمت کا سفر جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے جاری ہے۔
اکتوبر 2005ء میں آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد میں آنے والے زلزلے کے متاثرین کی امداد و بحالی کے لیے آپ کو الخدمت پاکستان کا کوارڈینیٹر مقرر کیا گیا۔ آپ نے زلزلہ متاثرین تک نہ صرف کروڑوں روپے کی مالی امداد پہنچائی بلکہ انھیں غذائی سامان، کپڑے، کمبل اور خیمے بھی مہیا کیے۔
وفات
نعمت اللہ خانؒ نے پیرانہ سالی کے باوجود تا دم مرگ تحریک اسلامی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، اور 89 سال کی عمر میں 25 فروری 2020ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون