جماعت اسلامی کے سابق امیر سراج الحق کا آبائی تعلق دیر سے ہے، تاہم پیدائش 5 اپریل 1962ء کو خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ، تحصیل شبقدر کے گاﺅں ”میرزو“ میں ہوئی۔ آپ کے والد محترم دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل اور مدرسے کے مہتمم تھے۔ آپ نے میرزو ہی کے گورنمنٹ پرائمری سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، بعدازاں دیر کے مختلف سکولوں میں زیرتعلیم رہے۔ گورنمنٹ ہائی سکول تیمرگرہ سے مڈل، جبکہ گورنمنٹ ہائی سکول لال قلعہ دیر میدان سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔
سراج الحق کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ آٹھویں جماعت میں ہی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کی ملک گیر تنظیم ”اسلامی جمعیت طلبہ“ کے رکن بن گئے۔ میٹرک کے طالب علم تھے تو انھیں اسلامی جمعیت طلبہ ضلع دیر کا ناظم مقرر کیا گیا۔ سراج الحق نے گورنمنٹ ڈگری کالج تیمرگرہ سے فرسٹ ائیر تا گریجویشن تعلیم حاصل کی۔ تنظیمی ذمہ داریوں کی وجہ سے مختلف کالجوں مثلاً گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مردان، گورنمنٹ مردان ڈگری کالج، گورنمنٹ کالج پشاور اور ڈگری کالج تیمرگرہ میں زیر تعلیم رہے، تاہم بی اے گورنمنٹ کالج تیمرگرہ سے کیا اور 1983ء میں ڈگری کالج تیمرگرہ سے ہی طلبہ یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ انھوں نے پشاور یونیورسٹی سے بی ایڈ کی ڈگری حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم ایڈ کا امتحان پاس کیا۔ اس عرصہ میں وہ اسلامی جمعیت طلبہ کی مختلف ذمہ داریوں پر فائز رہے، ناظم مالاکنڈ ڈویژن، تین سال تک ناظم صوبہ پختونخوا اور پھر 1989ء سے 1991ء تک بطور ناظم اعلیٰ خدمات سر انجام دیں۔
سراج الحق ”اسلامی جمعیت طلبہ“ سے فراغت کے فوری بعد جماعت اسلامی سے منسلک ہوگئے اور ایک سال سے زائد عرصہ تک اپنے علاقے میں کام کیا۔ انہوں نے اقراء سکول ثمرباغ میں بطور پرنسپل فرائض انجام دیے، ساتھ ہی تحریکی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے اور ایک سال کے اندر ہی جماعت اسلامی کے باقاعدہ رکن بن کر متنوع ذمہ داریاں نبھائیں۔ بعد ازاں خیبر پختونخوا میں قیم صوبہ(سیکرٹری جنرل) مقرر ہوئے اور 2003ء میں جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر منتحب ہوئے۔ اپریل 2009ء میں انھیں امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے مرکزی نائب امیر مقرر کیا، اس ذمہ داری کو بھی انھوں نے بخوبی نبھایا۔ مارچ 2014ء میں جماعت اسلامی کے ارکان نے آپ کو پہلی بار 5 سال کے لیے امیر منتخب کیا اور بعدازاں مارچ 2019ء میں سراج الحق ارکانِ جماعت کے ووٹوں سے دوسری بار 5 سال کے لیے امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب ہوئے۔
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے سراج الحق اپنی درویشانہ اور سادگی پسند طبیعت اور مجاہدانہ اوصاف کی بدولت تحریکی اور عوامی حلقوں میں کافی مقبول ہیں۔ اکتوبر 2002ء کے انتخابات میں دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے سراج الحق بھی PK 95 لوئر دیر سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار منتخب ہوئے اور متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت میں بطورِ سینئر وزیر اور وزیر خزانہ خدمات انجام دیں، جہاں اپنوں اور غیروں سے اپنی صلاحیت، قابلیت، امانت و دیانت کا لوہا منوایا۔ ان کی قیادت میں جماعت اسلامی کے 6 دیگر وزراء نے بھی مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور یوں سیاسی میدان میں بھی وہ ایک بہترین ٹیم لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔ 2006ء میں جب عید کے چوتھے روز باجوڑ کے علاقے ڈمہ ڈولہ میں دینی مدرسے پر ڈرون حملہ ہوا تو انہوں نے مدرسے کے بچوں کی اندوہناک شہادت پر اپنی وزارت سے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ 2013ء کے قومی انتخابات میں سراج الحق ایک بار پھر لوئر دیر سے صوبائی نشست پر منتخب ہو کر پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت میں دوسری بار سینئر وزیر اور وزیر خزانہ مقرر کیے گئے اور وزارت میں اپنی کارکردگی کے تسلسل کو آگے بڑھایا۔ پہلی بار امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب ہونے کے بعد اپنی ملک گیر تنظیمی و سیاسی مصروفیات کے پیش نظر سراج الحق صوبائی وزارت سے مستعفی ہو گئے اور بعد ازاں 2015ء میں صوبہ خیبر پختونخوا سے سینیٹ کا الیکشن جیت کر 2021ء تک بطور سینیٹر ذمہ داریاں نبھائیں اور ایوان بالا میں عوامی حقوق کی توانا آواز رہے۔
سراج الحق ہی وہ صوبائی وزیر خزانہ تھے جنہوں نے صوبے کے زیر انتظام خیبر بنک میں سود سے پاک بنکاری متعارف کروائی اور اپنے دونوں ادوار میں خسارے سے پاک سرپلس بجٹ پیش کیا۔ مرکز سے بجلی کی رائلٹی کی مد میں کروڑوں روپے کا خالص منافع صوبے کو لے کر دیا, پانچ مرلے تک کے گھر پر ٹیکس معاف کیا۔ میٹرک تک کے طلباء کے لیے نہ صرف فیسیں، وردی اور کتابیں مفت کیں بلکہ طالبات کے لیے وظیفہ بھی مقرر کیا۔ ہسپتالوں میں ایمرجنسی علاج مفت کیا اور اس سب کے ساتھ ساتھ مرکز سے بہترین فنانشل مینجمنٹ پر ڈیڑھ ارب روپے کا انعامی بونس بھی حاصل کیا۔ صوبے بھر میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگوائے، اسی طرز کے بیسیوں عوامی بہبود کے کام سراج الحق کی وزارتی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
اپنی وزرات کے دونوں ادوار میں سراج الحق کا دروازہ ہر خاص و عام کے لیے کھلا رہا۔ بلا تفریق مذہب،مسلک اور سیاسی وابستگی کے کوئی بھی ان سے مل سکتا تھا، اسی لیے ان کی شخصیت ہر دلعزیز رہی۔ انھوں نے سول سیکرٹیریٹ میں خود خطبہ جمعہ اور نمازوں کی امامت کروا کر ایک اور مثال قائم کی۔ وزیر کے طور پر قومی خزانے کو عوامی امانت سمجھتے ہوئے اندرون و بیرون ملک انھوں نے ایک نئی ریت ڈالی اور ان دورہ جات میں ہوٹلوں کے بے تحاشا سرکاری اخراجات چھوڑ کر اسلامک سینٹرز میں رہنا پسند کیا، اندرون ملک بغیر کسی پروٹوکول کے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر ان کی خاصیت رہی۔ بطور وزیر انھوں نے سرکاری رہائش گاہ کو ذاتی استعمال کی بجائے پبلک سیکرٹریٹ میں بدل دیا اور خود پشاور میں کرائے کے مکان میں رہنا پسند کیا۔
سراج الحق اردو، پشتو اور دیگر علاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ انگریزی، فارسی اور عربی بھی جانتے ہیں۔ زمانہ طالب علمی ہی سے اردو اور پشتو میں آپ کی ولولہ انگیز تقاریر عوامی حلقوں میں بہت پسند کی جاتی ہیں۔ آپ اپنی وزارتی اور تنظیمی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں سعودی عرب، قطر، برطانیہ، ترکی، متحدہ عرب امارات، جاپان، نیپال، سری لنکا، کویت، مصر، چین، ناروے اور جرمنی سمیت مشرق وسطیٰ اور کئی یورپی ممالک کا دورہ کرچکے ہیں۔ آپ کی صلاحیتوں اور اہم دینی و سیاسی حیثیت کی بدولت دنیا بھر سے عالمی کانفرنسوں میں مدعو کیا جاتا ہے۔ ملکی سیاست میں سراج الحق سادگی، متانت، روا داری، اخلاق اور کردار کا بہترین نمونہ سمجھے جاتے ہیں اور پانامہ کیس کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس آصف کھوسہ کے الفاظ تھے کہ "اگر پارلیمنٹ میں دفعہ 62، 63 نافذ کی جائے تو شائد سراج الحق کے علاوہ کوئی نہیں بچے گا"۔